حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی قبر
یہ بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کی قبر ہے، جو صحابہ کی کہکشاں میں سے ایک تھے اور مسجد نبوی کے مؤذن (نماز کے لیے پکارنے والے) کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کی قبر دمشق کے باب الصغیر قبرستان میں واقع ہے۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ مکہ میں ایک کافر کے حبشی (ایتھوپیائی) غلام تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا اسلام قبول کرنا فطری طور پر ان کے آقا کو پسند نہیں تھا اور اس لیے حضرت بلال رضی اللہ عنہ پر بے رحمی سے ظلم کیا گیا۔ اُمیہ بن خلف جو اسلام کا بدترین دشمن تھا، اسے دوپہر کے وقت جلتی ریت پر لٹا دیتا تھااور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے سینے پر ایک بھاری پتھر رکھ دیتا، جس سے وہ ایک عضو بھی نہ ہلا سکتے تھے۔ پھر وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے کہتا تھا کہ اسلام کو ترک کر دو یا پھر مر جاؤ۔ ان مصائب میں بھی حضرت بلال رضی اللہ عنہ پکارتے: ‘احد’ – ایک (اللہ)، ‘احد’ – ایک (اللہ)۔
رات کو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو کوڑے مارے جاتے اوردن میں جلتی ہوئی زمین پر لٹایا جاتا تاکہ یا تو وہ اسلام کو چھوڑ دے یا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے مر جائے۔ اذیت دینے والے تھک جاتے اور باری باری (ابو جہل، امیہ وغیرہ) تشدد کرتے اور زیادہ سے زیادہ دردناک عذاب دیتے لیکن بحضرت بلال رضی اللہ عنہ اپنی بات سے باز نہ آتے۔ آخر کار ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کے آقا کو قیمت ادا کرکے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خرید لیا اور وہ آزاد مسلمان ہو گئے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ان کی استقامت کا صلہ دیا۔ انہیں پیغمبر کا موذن بننے کا شرف حاصل ہونا تھا۔ نماز کے لیے اذان دینے کے لیے اندرون و بیرون ملک ہمیشہ ان کے ساتھ رہنا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے لیے مدینہ میں اپنا قیام جاری رکھنا بہت مشکل ہو گیا جہاں وہ ہر قدم اور ہر کونے میں ان کی کمی محسوس کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے مدینہ چھوڑ دیا اور اپنی باقی زندگی اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے گزارنے کا فیصلہ کیا۔ ایک مرتبہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں: ‘اے بلال! یہ کیسا ہے کہ تم مجھ سے ملنے نہیں جاتے؟’
وہ اٹھے اور مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حسن اور حسین رضی اللہ عنہ نے آپ سے اذان دینے کی درخواست کی۔ وہ انہیں انکار نہیں کر سکتے تھے، کیونکہ وہ انہیں بہت عزیز تھے۔ لیکن جیسے ہی اذان کی آواز آئی، مدینہ کے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے خوشگوار دنوں کی یاد میں اپنے غم سے کھلے عام رو پڑے۔ عورتیں بھی روتی ہوئی گھروں سے نکل آئیں۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ چند دنوں کے بعد دوبارہ مدینہ سے چلے گئے اور 20 ہجری میں دمشق میں وفات پائی۔
نوٹ کریں کہ یہ اندراج صرف معلومات کے مقاصد کے لیے دکھایا گیا ہے۔ کسی کی بھی قبر پر نماز نہیں پڑھنی چاہیے اور نہ ہی ان سے دعا مانگنا چاہیے کیونکہ یہ شرک کے مترادف ہے، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ہے۔
حوالہ جات: فضلِ عام شیخ زکریا کاندھلوی