اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص اور نیک بندوں کو انسان کے نزدیک اس لئے واضع کیا تاکہ لوگ ان سے سبق حاصل کر سکیں ۔ایسے ہی اللہ کے نیک بندوں میں سے ایک نبی حضرت یونس ہیں۔آپ حضرت ابرہیم علیہ السلام کی نسل میں سے تھے۔ آپ کو اللہ نے حکم دیا کہ جاؤ اور لوگوں کی اصلاح کرو ۔ وہ لڑتے جھگڑے ہیں ان کو محبت سے رہنا سکھاؤ ۔ حضرت یونس علیہ السلام نے اللہ کے حکم کی تعمیل کی اور لوگوں کو سمجھانے لگے کہ پیار محبت سے رہا کرو اللہ کو حسن و سلوک بہت پسند ہے ۔ پر وہ لوگ نہ مانیں اور حضرت یونس علیہ السلام کی تو ہین کرنے لگے ۔ پھر بھی اللہ کے نبی نے سالوں سال محنت کی اور ان کو سیدھا راستہ دکھا نے کی کوشش کی پر وہ لوگ نہ مانے ۔
اور آپ کا مذاق بنانے لگے ۔ آخر کار اللہ کے نبی نے فرمایا کے تم لوگوں نے اللہ کا حکم نہیں مانا بہت جلد تم لوگوں پر اللہ کا عذاب نازل ہو گا ۔ اور یہ بول کر حضرت یونس علیہ السلام اس بستی کو چھوڑ کر چلے گئے۔ اور دل میں سوچنے لگے کہ یہ لوگ نہیں سدھرنے والے ۔ حضرت یونس علیہ السلام نے اللہ کی اجازت کے بغیر ہی بستی کے لوگوں کی اصلاح کرنا چھوڑ دی ۔ کچھ ہی دن گزرے اور آسمان پر ایک بڑا سا بادل بن گیا جس میں آگ کے شعلے اور بجلی چمک رہی تھی ۔ جب بستی کے لوگوں نے یہ سب دیکھا تو وہ لوگ سمجھے کہ شاید قوم لوط کی طرح ہم پر بھی عذاب نازل ہوگیا ہے ۔ وہ لوگ گھبرا کر اللہ کے سامنے ہاتھ جوڑ نے لگے دعائیں مانگنے لگے ۔ اور کہنے لگے یونس سچا تھا اس کا اللہ بھی سچا تھا ۔ ہم نے اس کی بات نہیں مانی اور اب ہم پر اللہ کا عذاب آ گیا ہے اور ہمیں اب کوئی نہیں بچا سکتا ۔ اتنے میں ایک شخص نے کہا چلو اللہ سے ا پنے گنا ہوں کی معا فی ما نگتے ہیں وہ ہمیں معاف کر دے گا ۔ سب لوگ زمین پر ہاتھ جوڑ کر بیٹھ گئے اور اللہ سے رو رو کے دعا کر نے لگے کہ یا اللہ ہمیں معاف کر دے ۔ 3 دن تک اللہ سے دعا مانگتے رہے ۔ اللہ تو رحیم و کریم ہے اپنے بندوں کو معاف کر دیتا ہے ۔ اور حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کو بھی معاف کر دیا ۔اور وہ آگ کا گولا اس بستی سے دور چلا اور سب نے اللہ کا شکر ادا کیا ۔ اور حضرت یونس علیہ السلام کا انتظار کرنے لگے ۔ تاکہ وہ آۓ اور ہمیں اللہ کا دین سمجھا ۓ ۔ امن اور محبت سے رہنا سکھاۓ۔ اور دوسری طرف حضرت یونس علیہ السلام کشتی میں سوار ہو کر اس بستی سے دور جا رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ دوبار کبھی میں اس بستی کے لوگوں کے پاس نہیں آؤں گا اور نہ ہی ان کو سیدھا راستہ دکھا ؤں گا ۔ کشتی اپنے مقام کی طرف روا دواں تھی کے اچا نک طوفان شروع ہو گیا ۔
کشتی کے مالک نے کہا کشتی کا وزن کم کرنے کے لئے جو بھی سا مان ہے آپ کے پاس وہ سمندر میں ڈال دو ۔ سب نے مل کر سارا سامان سمندر میں ڈال دیا ۔ پھر بھی وزن کم نہیں ہوا اور نہ ہی کشتی سمبھل سکی۔ تب ا یک شخص نے فیصلہ کیا کہ ہم میں سے کسی ایک کو سمندر میں گر نا ہو گا ۔ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔ سالار بو لا قرعہ اندازی کرتے ہیں اور جس کا نام بھی آۓ گا وہی سمندر میں جاۓ گا ۔ جب قرعہ اندازی کی گئی تو حضرت یونس علیہ السلام کا نام آگیا ۔ سب کہنے لگے نہیں یہ تو اللہ کا نبی ہے اس کو سمندر میں ڈال نہیں سکتے ۔ ایک بار پھر قرعہ اندازی کی گئی پھر حضرت یونس علیہ السلام کا نام آیا ۔ تیسری بار پھر قرعہ اندازی کی گئی پھر حضرت یونس علیہ السلام کا نام آ گیا۔ تب حضرت یونس علیہ السلام سمجھ گئے کہ یہ اللہ کی مرزی ہے اور یہ سوچ کر وہ سمندر میں کود گئے ۔ اللہ نے ایک مچھلی کو حکم دیا کہ جاؤ اور میرے نبی کو اپنے پیٹ میں رکھو ۔ مچھلی نے حضرت یونس علیہ السلام کو نگل لیا ۔
حضرت یونس علیہ السلام جب ہوش میں آئے تو ان کو پتا چلا کہ وہ مچھلی کے پیٹ میں ہیں ۔ حضرت یونس علیہ السلام اللہ سے باتیں کرتے ہیں کہ اے اللہ مجھے معاف کرنا میں وہ کام نہیں کر سکا جو تو نے میرے ذمے لگایا تھا ۔ حضرت یونس علیہ السلام سنتے ہیں کہ ان کے ساتھ ساتھ مچھلیاں بھی اللہ کا ذکر کرتی ہیں ۔ حضرت یونس علیہ السلام کو چالیس دن مچھلی کے پیٹ میں گزر گئے ۔ ایک دن حضرت یونس علیہ السلام کو خیال آیا کہ اللہ کو اس کی سب سے محبوب چیز کا واسطہ دوں پھر اللہ میری دعا قبول کرے گا ۔ تب حضرت یونس علیہ السلام کو یاد آیا کہ میرے دادا ابراہم نے اپنی اولاد کو بتایا تھا کہ یہ کل کائنات محمد کے لۓ بنی ہے ۔ پھر حضرت یونس علیہ السلام نے دعا کی اے اللہ اپنے پیارے نبی محمد صلی علیہ وآلہ وسلّم کے صدقے مجھے اس قید سے رہا کر ۔ اللہ نے حضرت یونس علیہ السلام کی دعا قبول کی اور مچھلی کو حکم دیا کہ جا اور میرے نبی کو خشکی کی طرف رکھہ آ۔ وہ مچھلی خشکی کی طرف گئ اور حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی نے خشکی پر اگل دیا ۔اتنے دن مچھلی کے پیٹ میں رہ کر حضرت یونس علیہ السلام کا پورا جسم سوج گیا ۔ اور دھوپ برداشت نہ ہوئی ۔ اور آپ کا جسم جلنے لگا ۔تب آپ نے اللہ سے د عا کی اے اللہ مجھے رہا کر دیا اب اس تکلیف سے بھی نجات عطا کر ۔ تب اللہ نے زمین کو حکم دیا کہ ایک پھلدار درخت میرے نبی پر سایا کرے ۔اور خوراک بھی مہیاء کرے ۔ اللہ کے نبی اس درخت کے سائے میں صحت یاب ہونے لگے ۔ جب مکمل طور پر صحت یاب ہو گئے تو اللہ کے نبی واپس اس بستی میں چلے گئے جہاں اللہ نے حکم دیا ۔
حضرت یونس علیہ السلام کے واقع میں اللہ نے ایک سبق رکھا ہے جس طرح سورج روشنی دیتا ہے زمین اناج دیتی ہے چاند راحت اور سکون دیتا ہے ۔ کسی کو خود کچھ بھی فیصلہ اختیار نہیں ۔ سورج کو یہ اختیار نہیں کے مشرقی اور مغربی لوگوں پر روشنی کرے اور شمال جنوب پر نہیں ۔ بارش کو یہ اختیار نہیں کے مومن پر برسے اور منافق پر نہیں ۔ویسے ہی اللہ کے نیک بندوں کو بھی یہ اختیار نہیں کہ کس کی اصلاح کرنی ہے اور کس کی نہیں۔ کون اللہ کے قریب ہے اور کون دور یہ صرف اللہ جانتا ۔ کون جنت میں جاۓ گا کون دوزخ میں یہ بھی بس اللہ جانتا ۔