حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم کے 70 ہزار انسان دریا کے کنارے ایک بستی میں رہتے تھے ۔ ان پر خدا کی بہت رحمتیں تھیں ۔ اور جب ان پر خدا کی رحمتیں برستی رہی تو وہ لوگ خدا سے غافل ہوگئے ۔ اور اپنی دنیا میں مگن ہو گئے ۔ اللہ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم پر ہفتے کے دن کا ادب لازم قرار دیا اور حکم دیا کے اتوار سے جمعے تک مچھلیاں پکڑنی ہیں مگر ہفتے کو مچھلیاں نہیں پکڑنی ۔
حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم نے اتوار سے جمعے تک مچھلیاں پکڑنی شروع کر دی ۔ مگر ہفتے کو مچھلیاں دریا میں زیادہ ہوتی اور با قی کے 6 دن کم ہوتی ۔ ہفتے کے دن جب بھی حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم دریا کے پاس آتی تو اتنی زیادہ مچھلیاں دیکھ کر ان کا دل بے ایمان ہو جاتا ۔ شیطان نے ان کے اس لالچ کا فائدہ اٹھا کر ان کو اکسانا شروع کر دیا ۔ اور انہوں نے سوچ لیا کہ ہفتے کو وہ دریا میں جال لگا دیا کریں گے اور اتوار کو پکڑ لیا کریں گے ۔ اسی طرح کچھ لوگوں نے جال لگا لیے اور کچھ لوگوں نے چھوٹے چھوٹے حوض گھر تک بنا لۓ۔ اور اس حوض کا دریا تک راستہ بنا دیا ۔ اور ہفتے کو مچھلیاں جب ان حوض اور جال میں آ جاتی تو وہ پکا کر کھا لیتے ۔ اسی بستی میں اللہ ک کچھ نیک بندے بھی تھے ۔ اور انہوں نے کہا کہ تم لوگوں نے یہ جال جو بنا رکھے ہیں ہفتے کو مچھلیاں جمع کرتے ہو اور اتوار کو پکڑ تے ہو یہ شکار ہفتے کا ہی ہے ۔ تم پر اللہ کا عذاب ہوگا ۔
تم لوگ گناہ کرنے سے باز نہیں آئے ۔ وہ لگ ہنسنے لگے اور کہنے لگے ۔ ہماری جو مرضی ہم وہ کریں گے ۔اس بستی میں 3 قسم کے گروہ تھے ۔ ایک وہ جو اس گناہ کی شروعات کر چکے تھے اور دوسرے وہ جو ان کی اصلاح کرتے تھے ۔ اور تیسرے وہ جو اللہ سے ڈرتے تھے ۔ جن کو اللہ کا خوف تھا انہوں نے سوچ لیا تھا کہ وہ ان کے ساتھ نہیں رہے گے ۔ انہوں نے بستی کے درمیان میں اینٹوں سے دیوار بنانا شروع کر دی ۔ اور اس بستی کو 2 حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جن کو اللہ کا ڈر تھا ۔ اور دوسرے وہ جو اللہ کے ڈر سے بے خوف ہو چکے تھے ۔ اور گناہ کرتے جا رہے تھے ۔ اور رات رات اللہ نے ان پر عذاب نازل کر دیا ۔ اور وہ بندر بن گۓ ۔ صبح جب اللہ کے نیک بندے سو کے اٹھے اور ان کو دیوار کے پار سے کوئ آواز بلند ہوتی نظر نہ آئی ۔ تو انہوں نے دیوار وں پر چڑھ کر دیکھا تو سب کے سب بندر بن گۓ تھے ۔وہ خوف سے چلا نے لگے اور خدا سے معافی مانگنے لگے ۔