Skip to content

Ayub Khan

Ayub Khan

Ayub Khan started his career as a military officer in the British Army and served on many fronts. On the eve of partition, he chose to serve under the banner of a Muslim state i.e. Pakistan. He became the first C-in-C of Pakistan’s Army furthermore because the country’s first CMLA was appointed by Sikander Mirza. He was also elected to serve in the public office of the presidency.

He gave Pakistan a constitution and some important reforms, which however were never implemented. Many historians and political analysts consider him answerable for the dismemberment of East Pakistan. After an extended illness, he breathed his last on 19th April 1974. Ayub Khan was born on May 14, 1907, in Rihana near Haripur district that’s located in North West Frontier Province (now Khyber-Pakhtoonkhoah) of Pakistan.

As far as his family background is anxious, he belonged to the Tareen tribe of Pakhtoon ethnicity. His father was a Risaldar-Major in the British Army. After completing his primary education, Ayub Khan got enrolled in the Aligarh Muslim University but left his studies incomplete and was accepted into the Royal Academy Sandhurst.

On behalf of his extraordinary performance in the Sandhurst Academy, he was inducted as a military officer in 1928 in the British Indian army. He served in the military on various fronts i.e. Waziristan War (1936-39) and War II on the Burma front (1944-1945) being two of them.

When the partition plan was declared, Ayub Khan was one of those senior Muslim officers who opted for Pakistan. He was among the ten most senior officers of Pakistan. In 1951 he became the first native C-in-C of Pakistan, succeeding General Douglas Gracy. He wasn’t appointed the C-in-C on behalf of his seniority but rather on the perception that he was an apolitical officer. Later events proved that perception to be wrong.

Ayub’s appointment as the C-in-C was an occurrence that he had never thought would materialize therein life and provoked the latent talent of statesmanship in him. He, with the ambition to rule the country, began to take an interest in state politics. It was Ayub, on whose suggestion, Liaquat Ali, the, then, Premier of Pakistan stretched the hand of friendship towards the U.S.A. Actually; Ayub Khan presented the shortage of arms and armaments in an exceedingly very alarming situation for the protection of the country and compelled Liaquat Ali to approach the USA for the acquisition of munitions.

In some way, he succeeded in establishing the relationship between the U.S.A and Pakistan, which was a relation between G.H.Q and the Pentagon. To execute his plans, he considered it necessary to require the senior-most bureaucracy into his confidence and made them realize that the politicians weren’t worthy to rule the country.

Till then, the bureaucrats had also been uninterested in their ineligible and inefficient ‘’Bosses’’. along with Ayub Khan, they entered into a secret understanding and allegiance and were determined to ‘save’ their country from the clutches of uneducated and ill-mannered landed aristocracy.

In 1954, he was assigned with an additional charge of the Ministry of Defense, which he held for pretty much a year i.e. 1954-55. Politically the country was perceived to be very unstable but behind the curtain, the establishment was tightly holding the reins of the executive machinery, and also the state was removed from collapse or warfare.

Ayub supported not only the acts of Ghulam Muhammad, who dismissed many ministries but also backed the illegal and immoral acts of Sikandar Mirza. Under the commandment of Sikandar Mirza, he abrogated the constitution of 1956 and promulgated jurisprudence in the country on 7th October 1958. Soon he dismissed the president on 27th October 1958 and became the CMLA of Pakistan.

Ayub Khan lifted the law in 1962 and a brand new constitution was enforced in the country. When he became confident about his popularity publicly spheres, despite the very fact that the political powers were divided, he declared presidential elections in 1965.

The opposition, though divided, made a consensus on Fatima Jinnah (the reverend sister of the founding father of Pakistan) because of the presidential candidate against Ayub Khan. The elections were held on 2nd January 1965 followed by Ayub’s success. The main reason for Ayub’s success brought up the support of Basic Democrats. now Ayub has the legal cover to dictate the state.

The turning point in his reign was the Indo-Pak War of 1965 which resulted in a settlement reached by Ayub at Tashkent, called the Tashkent Declaration. The full nation felt deceived by this act of Ayub Khan; even his hand and secretary of state of that time, Zulfiqar Bhutto, resigned from his post and took up the opposition against Ayub. The war had repercussions on the domestic politics of the country. Two powers emerged as a result of this incident i.e. Z.A. Bhutto in West Pakistan and Mujeeb-ur-Rehman’s opposition in Bangla Desh where the Awami League sought more autonomy for the province.

In 1969, Ayub opened negotiations with different political powers excluding Bhashani and Bhutto. But under the severe pressure of the agitating forces, Ayub handed over control of Pakistan to Commander-in-Chief General Yahya Khan, who was the President’s most loyal lieutenant and was promoted on behalf of his loyalty to the president by overruling the set rules of promotion.

Ayub Khan was in West Pakistan at the time of the war of 1971 and was willing to fight together with the soldiers of Pakistan but he couldn’t do so on behalf of his poor health. He died in 1974.

ایوب خان

ایوب خان نے اپنے کیریئر کا آغاز برطانوی فوج میں بطور فوجی افسر کیا اور کئی محاذوں پر خدمات انجام دیں۔ تقسیم کے موقع پر انہوں نے ایک مسلم ریاست کے جھنڈے تلے خدمات انجام دینے کا انتخاب کیا۔ وہ پاکستان کی فوج کے پہلےسی-ان-سی ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کے پہلے سی- ایم- ایل- اے بن گئے، جنہیں سکندر مرزا نے مقرر کیا تھا۔ وہ ایوان صدر کے عوامی عہدے پر خدمات انجام دینے کے لیے بھی منتخب ہوئے۔ انہوں نے پاکستان کو ایک آئین اور چند اہم اصلاحات دی تھیں، جن پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ بہت سے مورخین اور سیاسی تجزیہ کار انہیں مشرقی پاکستان کے ٹکڑے کرنے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ طویل علالت کے بعد انہوں نے 19 اپریل 1974 کو آخری سانس لی۔

ایوب خان 14 مئی 1907 کو ہری پور ضلع کے قریب ریحانہ میں پیدا ہوئے جو پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ خیبر پختون خواہ) میں واقع ہے۔ جہاں تک ان کے خاندانی پس منظر کا تعلق ہے، ان کا تعلق پختون نسل کے ترین قبیلے سے تھا۔ ان کے والد برطانوی فوج میں رسالدار میجر تھے۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایوب خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر رائل ملٹری اکیڈمی سینڈہرسٹ میں داخل ہو گئے۔

سینڈہرسٹ اکیڈمی میں ان کی غیر معمولی کارکردگی کی وجہ سے، انہیں 1928 میں برطانوی ہندوستانی فوج میں کمیشنڈ آفیسر کے طور پر شامل کیا گیا۔ انہوں نے مختلف محاذوں پر فوج کی خدمات انجام دیں۔ وزیرستان کی جنگ (1936-39) اور برما کے محاذ پر دوسری جنگ عظیم (1944-1945) ان میں سے دو ہیں۔ جب تقسیم کے منصوبے کا اعلان کیا گیا تو ایوب خان ان سینئر مسلم افسران میں سے ایک تھے جنہوں نے پاکستان کا انتخاب کیا۔ ان کا شمار پاکستان کے دس سینئر ترین افسران میں ہوتا تھا۔ 1951 میں وہ جنرل ڈگلس گریسی کے بعد پاکستان کے پہلے مقامی سی-ان-سی بن گئے۔ انہیں ان کی سنیارٹی کی طرف سے سی-ان-سی تعینات نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس خیال پر کہ وہ ایک غیر سیاسی فوجی افسر تھے۔ بعد کے واقعات نے اس تاثر کو غلط ثابت کیا۔

ایوب کی بطور سی-اِن-سی تقرری ایک ایسا واقعہ تھا جس کے بارے میں اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کی زندگی میں عمل درآمد ہو گا اور اس نے ان میں مدبرانہ صلاحیتوں کو ابھارا۔ اس نے ملک پر حکمرانی کی خواہش کے ساتھ ریاستی سیاست میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ یہ ایوب ہی تھے جن کی تجویز پر اس وقت کے وزیراعظم پاکستان لیاقت علی نے امریکہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ ایوب خان نے اسلحے کی قلت کو ملکی سلامتی کے لیے انتہائی تشویش ناک صورت حال میں پیش کیا اور لیاقت علی کو اسلحہ کے حصول کے لیے امریکا سے رجوع کرنے پر مجبور کیا۔

اس طرح وہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے جو کہ جی-ایچ-کیو اور پینٹاگون کا رشتہ تھا۔ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھوں نے سینئر ترین بیوروکریسی کو اعتماد میں لینا ضروری سمجھا اور انھیں باور کرایا کہ سیاست دان ملک پر حکومت کرنے کے لائق نہیں ہیں۔ اس وقت تک بیوروکریٹس بھی اپنے نااہل اور نالائق ’’باسز‘‘ سے تنگ آچکے تھے۔ ایوب خان کے ساتھ مل کر، انہوں نے خفیہ مفاہمت اور وفاداری کی اور اپنے ملک کو ان پڑھ اور بد اخلاق زمیندار اشرافیہ کے چنگل سے ‘بچانے’ کا عزم کیا۔

سنہ 1954ء میں انہیں وزارت دفاع کا اضافی چارج سونپا گیا، جو انہوں نے تقریباً ایک سال یعنی 1954-55 تک سنبھالا۔ سیاسی طور پر ملک بہت غیر مستحکم دکھائی دے رہا تھا لیکن پردے کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ نے انتظامی مشینری کی باگ ڈور مضبوطی سے تھام رکھی تھی اور ریاست ٹوٹ پھوٹ یا خانہ جنگی سے بہت دور تھی۔ ایوب نے نہ صرف غلام محمد کے اقدامات کی حمایت کی، جنہوں نے کئی وزارتیں برخاست کیں، بلکہ سکندر مرزا کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی کاموں کی بھی حمایت کی۔ سکندر مرزا کے حکم کے تحت، انہوں نے 1956 کے آئین کو منسوخ کیا اور 7 اکتوبر 1958 کو ملک میں مارشل لاء نافذ کیا، جلد ہی انہوں نے 27 اکتوبر 1958 کو صدر کو برطرف کر دیا اور پاکستان کے سی ایم ایل اے بن گئے۔

ایوب خان نے 1962 میں مارشل لاء ہٹا دیا اور ملک میں نیا آئین نافذ کیا گیا۔ جب انہیں عوامی حلقوں میں اپنی مقبولیت کے بارے میں اعتماد حاصل ہوا، اس حقیقت کے ساتھ کہ سیاسی طاقتیں تقسیم ہو چکی ہیں، تو انہوں نے 1965 میں صدارتی انتخابات کا اعلان کر دیا۔ حزب اختلاف اگرچہ منقسم تھی، فاطمہ جناح (بانی پاکستان کی قابل احترام بہن) پر اتفاق رائے کر لیا۔ ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی امیدوار۔ انتخابات 2 جنوری 1965 کو ہوئے جس کے بعد ایوب کی کامیابی ہوئی۔ ایوب کی کامیابی کی بڑی وجہ بنیادی جمہوریت پسندوں کی حمایت تھی۔ اس بار ایوب کو قوم کو ڈکٹیٹ کرنے کا قانونی احاطہ مل گیا۔

ان کے دور حکومت میں اہم موڑ 1965 کی پاک بھارت جنگ تھی جو ایوب کے تاشقند میں طے پانے والے ایک معاہدے پر ختم ہوئی جسے تاشقند اعلامیہ کہا جاتا ہے۔ ایوب خان کی اس حرکت پر پوری قوم نے خود کو دھوکا محسوس کیا۔ یہاں تک کہ ان کے دائیں ہاتھ اور اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار بھٹو نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ایوب کے خلاف اپوزیشن کا بیڑا اٹھایا۔ اس جنگ کے اثرات ملک کی ملکی سیاست پر پڑے۔ اس واقعے کے نتیجے میں دو طاقتیں ابھریں یعنی مغربی پاکستان میں زیڈ اے بھٹو اور مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان کی مخالفت جہاں عوامی لیگ نے صوبے کے لیے مزید خود مختاری مانگی۔

سنہ1969 میں ایوب نے بھاشانی اور بھٹو کو چھوڑ کر مختلف سیاسی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا۔ لیکن مشتعل قوتوں کے شدید دباؤ کے تحت، ایوب نے پاکستان کا کنٹرول کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دیا، جو صدر کے سب سے وفادار لیفٹیننٹ تھے اور ترقی کے مقررہ اصولوں کو ختم کر کے صدر سے وفاداری کی بنا پر ترقی دی گئی۔

ایوب خان 1971 کی جنگ کے وقت مغربی پاکستان میں تھے اور افواج پاکستان کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے تیار تھے لیکن وہ اپنی خراب صحت کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکے۔ ان کا انتقال 1974 میں ہوا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *