بنگال کی تقسیم لارڈ کرزن کے دور میں سب سے اہم واقعہ تھا۔ یہ بنیادی طور پر انتظامیہ کی سہولت کے لیے کیا گیا تھا۔ بنگال ان دنوں ہندوستان کا سب سے بڑا صوبہ تھا جس کی آبادی 80 ملین کی آبادی کے ساتھ 1,89,000 مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی۔ یہ بنگال، بہار اور اڑیسہ پر مشتمل تھا اور ایک لیفٹیننٹ گورنر کے مرکز میں تھا۔ لارڈ کرزن کے گورنر جنرل آف انڈیا کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد تقسیم پر بحث مندرجہ ذیل مسائل کی وجہ سے شروع ہوئی
نمبر1. صوبہ کی وسعت
صوبہ 80 ملین کی آبادی کے ساتھ 1,89,000 مربع میل کے رقبے پر پھیلا ہوا تھا، جس کا انتظام ایک لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے نہیں کیا جا سکتا تھا۔ وہ اپنے دور اقتدار میں ایک بار بھی پورے صوبے کی وسعت کی وجہ سے دورہ نہیں کر سکے۔
نمبر2. مواصلات کے محدود ذرائع
دریاؤں اور جنگلات کی وجہ سے صوبوں میں مواصلات کے ذرائع محدود تھے۔ ناکافی پولیس اور غیر موثر انتظامات کی وجہ سے صوبوں میں امن و امان کی حالت بھی ابتر تھی۔ اس لیے صوبے کی تقسیم کی ضرورت کئی بار محسوس کی گئی۔
نمبر3. زبان کا فرق
مغربی بنگال اور مشرقی بنگال کے باشندوں کی زبانوں اور تہذیب میں بھی فرق تھا۔ مغربی بنگال کے باشندے اپنے آپ کو تہذیب میں مشرقی بنگال کے باشندوں سے برتر سمجھتے تھے۔اس شرط نے صوبوں کی تقسیم کا مطالبہ کیا۔
نمبر4. وقت کی ضرورت
مشرقی بنگال میں تجارت کو فروغ دینے اور چٹاگانگ کی بندرگاہ کو فروغ دینے کے لیے بنگال کی تقسیم وقت کی ضرورت تھی، جو صرف صوبوں کی تقسیم سے ہی ہو سکتی تھی۔
نمبر5. تقسیم
اس طرح بنگال کی تقسیم کا شمار ایک طرف حکومت اور انتظامیہ میں کارکردگی کو بحال کرنے کے لیے کیا گیا اور دوسری طرف ترقی اور ترقی کے لیے مقامی اقدامات کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ لارڈ کرزن نے بنگال کو تقسیم کیا اور قابل انتظام سائز کے دو نئے صوبے بنائے – مشرقی اور مغربی بنگال۔ مشرقی بنگال ڈھاکہ، ممان سنگھ، آسام، کولا، رنگ پور، اور بوگرہ ضلع پر مشتمل تھا، ڈھاکہ مشرقی بنگال کا دارالحکومت تھا جس میں اکثریتی مسلم صوبہ تھا، جب کہ بہار اور اڑیسہ نے ایک علیحدہ صوبہ تشکیل دیا تھا جسے کلکتہ کے دارالحکومت کے ساتھ مغربی بنگال کہا جاتا تھا۔ اور ہندو اکثریتی صوبے بن گئے۔
مشرقی بنگال کی آبادی اٹھارہ ملین مسلمانوں اور بارہ ملین ہندوؤں پر مشتمل تھی۔ جبکہ مغربی بنگال کی آبادی 54 ملین تھی جس میں سے 42 ملین جہاں ہندو اور اس طرح ہندو اکثریتی صوبہ تھا۔
مسلمانوں کا ردعمل
مسلمانوں کی طرف سے اس کا مثبت جواب ملا۔ یہ سوچا جاتا تھا کہ اس سے مسلمانوں کی سماجی اور معاشی طور پر آزادی ہوگی۔ مسلمانوں نے مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر بنگال کی تقسیم کا خیر مقدم کیا
نمبر1. مشرقی بنگال کے اکثریتی صوبے میں مسلمان معاشی میدان میں ہندو تسلط سے آزاد ہوں گے۔ انہیں خدمات اور زراعت کی ترقی کے مواقع ملیں گے۔
نمبر2. ڈھاکہ کا شہر، جہاں مسلمان اکثریت میں تھے، مسلم ثقافت کا مرکز تھا۔ کلکتہ کے مقابلے ڈھاکہ میں مسلمانوں کے پاس سماجی اور ثقافتی ترقی کے لیے کامیابی کا بڑا موقع تھا۔
نمبر3. تقسیم کے نتیجے میں سیاسی ترقی ہو سکتی ہے اور حکومت میں نمائندگی کی کارروائی کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔
نمبر4. بنگال کی تقسیم نے مسلمانوں کو ہندوؤں سے مقابلہ کرنے سے نجات دلائی، جو زندگی کے ہر شعبے میں زیادہ ترقی یافتہ تھے۔
ہندوؤں کا جواب
ہندوؤں نے اسے قبول نہیں کیا، کیونکہ اس نے ان کی اجارہ داریوں اور پورے بنگال کی معاشی، سماجی، سیاسی زندگی پر خصوصی گرفت کو ایک واضح دھچکا پہنچایا۔ انہوں نے اسے برطانوی حکومت کی دانستہ کوشش قرار دیا۔
نمبر1. بنگال کی تقسیم نے مسلمانوں کی بہتری کے امکانات کو روشن کر دیا تھا۔ جبکہ ہندو جاگیردار، سرمایہ دار اور تاجر جمود اور مسلمانوں کا استحصال جاری رکھنا چاہتے تھے۔
نمبر2. ہندو وکلاء نے بھی بنگال کی تقسیم پر رد عمل کا اظہار کیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ نئے صوبے میں اپنی الگ عدالتیں ہوں گی اور اس طرح ان کی پریکٹس متاثر ہوگی۔
نمبر3. ہندو پریس ہندو وکیلوں سے مختلف نہیں تھا۔ تقریباً پورے صوبے کے پریس پر ہندوؤں کی اجارہ داری تھی۔ انہیں ڈر تھا کہ نئے اخبارات قائم ہو جائیں گے جس سے ان کی آمدنی قدرتی طور پر کم ہو جائے گی۔
نمبر4. ہندوؤں نے سودیشی تحریک شروع کی جس کا واحد مقصد برطانوی سامان کا بائیکاٹ کرنا تھا۔
تقسیم کا خاتمہ
جب لارڈ ہارڈینیج نے گورنر جنرل آف انڈیا کا عہدہ سنبھالا تو ہندو پھر سے سرگرم ہوگئے اور بنگال کی تقسیم کو منسوخ کرنے کے لیے ان کے پاس نمائندہ بھیجا۔ انہوں نے برطانوی وزیر اعظم برائے ہندوستانی امور سے بھی یہی سفارش کی۔ 12 دسمبر 1911 کو مہتمم جارج پنجم کے دورہ ہند اور دہلی میں دربار کے انعقاد کے موقع پر بنگال کی تقسیم کو منسوخ کر دیا گیا۔
متحدہ بنگال کو گورنر اور آسام کو چیف کمشنر کے ماتحت کیا گیا۔ یہ فیصلہ مسلمانوں کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ اس نے انہیں اداس اور مایوس چھوڑ دیا۔ ان کے غصے اور غصے کے بڑے پیمانے پر اثرات مرتب ہوئے۔ مسلمانوں کے رہنماؤں اور دانشوروں نے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے بدترین قسم کا غدار قرار دیا۔
نتیجہ
ہندوستان کے مسلمانوں نے اس قدم کو سراہا اور انگریزوں کے حق میں آنا شروع کردیا لیکن انگریزوں نے ہندوؤں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے سامنے جلد ہی ہار مان لی جس سے مسلمانوں کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی اہمیت کا احساس ہوا اور سیاسی طور پر خود کو منظم کرنے میں مدد ملی۔ اس نے سرسید کے اس خدشے کی بھی تصدیق کی کہ مسلمان ہندوؤں کی اکثریت میں ڈوب جائیں گے اور اپنی جان کھو سکتے ہیں۔
السلام علیکم
میں بھی بیوز فلیکس ویب سائٹ کے ذریعے اپنا مواد شائع کرناچاہتی
رہنمائی کرسکتے ہیں؟ ہوں تاکہ صارفین استفادہ حاصل کر سکیں. کیا آپ میری
You can email your content to info@newzflex.com