Common wealth

In تاریخ
August 09, 2022
Common wealth

تعارف

کامن ویلتھ ایک بین الاقوامی تنظیم کا نام ہے۔ ملکہ الزبتھ دوم اس تنظیم کی سربراہ ہیں۔ اس تنظیم کو بین الحکومتی تنظیم بھی کہا جا سکتا ہے۔ اسے بعض اوقات ‘ہم خیال’ لوگوں کی تنظیم یا ‘عام طرز زندگی کے ساتھ لوگوں کی تنظیم کہا جاتا ہے۔

ادارہ جاتی فریم ورک۔

اس تنظیم کے کل ارکان کی تعداد 54 ہے جس میں برطانیہ بھی شامل ہے۔

رکن ممالک اس میں شامل ہونے کے پابند نہیں ہیں۔ وہ اس میں شامل ہو سکتے ہیں یا اس سے دستبردار ہو سکتے ہیں۔ رکن ممالک مختلف نسلوں، ثقافتوں، روایات اور مختلف معاشی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں لیکن سبھی ایک مشترکہ زبان رکھتے ہیں، کچھ حد تک اسی طرح کے انتظامی اور عدالتی نظام بھی۔ اس تنظیم کے تقریباً تمام ارکان کبھی برطانیہ کی کالونیاں تھے۔ اس تنظیم کے کچھ اصول ہیں حالانکہ اس کا کوئی آئینی ڈھانچہ نہیں ہے اور وہ اصول جمہوریت، قانون کی حکمرانی، انفرادی آزادی، آزاد تجارت، انسانی حقوق اور کثیرالجہتی کا فروغ ہیں۔ تمام رکن ممالک ان اصولوں کے فریم ورک کے اندر ایک دوسرے کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

رکن ممالک کے لیے اہمیت۔

اگر دولت مشترکہ کا کوئی رکن ملک اپنی معیشت کو فروغ دینا چاہتا ہے تو یہ فورم اس کے لیے بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ یہ واضح ہے کہ بہت سے ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک اس فورم پر مختلف معاہدوں کے ذریعے اپنی معیشتوں کو ترقی دیتے ہیں۔ اقتصادی اور سماجی شعبوں میں ممالک کی ترقی کے لیے تنظیم کا سیکرٹریٹ متعلقہ ملک کی مخصوص حکومت کو تکنیکی مدد فراہم کرتا ہے۔ دولت مشترکہ کے سیکرٹری جنرل کو سیکرٹریٹ کا سربراہ کہا جاتا ہے۔ یہ دولت مشترکہ کی مرکزی ایجنسی ہے جو رکن ممالک کے درمیان تعامل اور تعاون کو برقرار رکھتی ہے۔

کامن ویلتھ گیمز دنیا میں بہت مشہور ہیں۔ ہر 4 سال بعد یہ کھیل منعقد ہوتے ہیں۔ ان کھیلوں کا مقصد دولت مشترکہ کے ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا اور ان کے کھیلوں اور ثقافتی ورثے کو بانٹنا ہے۔ دولت مشترکہ کی ایک اور اہم خصوصیت ادب کی ہے۔ کامن ویلتھ رائٹر کا انعام بھی بہترین ادیبوں کو دیا جاتا ہے تاکہ ممبر ممالک کے بہترین لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔

پاکستان اور دولت مشترکہ۔

پاکستان بھی دولت مشترکہ کا رکن ہے اور برطانوی راج سے آزادی حاصل کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ پاکستان 14 اگست 1947 کو ایک آزاد ریاست کے طور پر ابھرا۔ آزادی کے بعد پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان بھی دولت مشترکہ کے رکن بن گئے۔ دولت مشترکہ میں پاکستان کی رکنیت کے حوالے سے لوگوں کے دو گروہ ہیں جو اپنی رائے دیتے ہیں۔ ایک مکتبہ فکر کی رائے ہے کہ پاکستان کو دولت مشترکہ میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ پاکستان نے ماؤنٹ بیٹن کو اپنا گورنر جنرل بنانے سے انکار کر دیا تھا جبکہ بھارت نے ان کی پیشکش قبول کر لی تھی۔ لہٰذا ہندوستان کے پاکستان کے بعد دولت مشترکہ کے ساتھ زیادہ اچھے تعلقات ہوں گے اور اگر دونوں ریاستوں کے درمیان کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو برطانیہ ہندوستان کی حمایت کرے گا۔ دوسرے مکتبہ فکر کی رائے ہے کہ پاکستان کو اس سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے کیونکہ پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ اسی پلیٹ فارم سے حل ہو سکتے ہیں۔

ان کی رائے ہے کہ اس فورم پر ہر ملک کو برابر سمجھا جاتا ہے اور بھارت اور دیگر ممالک کے ساتھ بہت سے معاملات برابری کی بنیاد پر حل کیے جا سکتے ہیں۔ تاریخی طور پر پہلا مکتبہ فکر اپنے نقطہ نظر کو غیر دلچسپی یا کم از کم پیچھے رہ کر مسئلہ کشمیر کے حل میں دولت مشترکہ کے مطلوبہ کردار کو ثابت کرتا ہے۔ اقوام متحدہ اور دولت مشترکہ دونوں پڑوسیوں کے درمیان بہت سے دیرینہ مسائل پر خاطر خواہ نتائج نہیں دے سکے۔ کشمیری عوام کو حق خود ارادیت نہیں دیا گیا اور وہ آج بھی بھارتی ریاست کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ سابق اطالوی کالونیوں اور فلسطین کے معاملے میں دولت مشترکہ کے بعض ارکان کا رویہ پاکستان کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا کے لیے بھی حیران کن تھا۔ لہٰذا، ان مثالوں سے یہ رائے پیدا ہوئی ہے کہ دولت مشترکہ کی رکنیت اس قدر قابل قدر نہیں رہی جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ تاہم، اگر دوسرے مکتبہ فکر کی رائے کا تجزیہ کیا جائے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس تنظیم کی رکنیت نہ صرف مایوسی کا باعث ہے۔ پاکستان اس فورم کے ذریعے عملی نقطہ نظر سے بہت سے فوائد حاصل کر سکتا ہے۔ چونکہ سیکیورٹی کا مسئلہ پاکستان کے لیے بہت سنگین تشویش ہے، اس لیے وہ اس فورم سے مدد لے سکتا ہے اور اس سنگین چیلنج سے نمٹنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ مزید برآں، پاکستان اپنے سیکورٹی اپریٹس کو بہتر بنانے کے لیے دیگر رکن ممالک سے تکنیکی مدد حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور اس کی معیشت روز بروز زوال پذیر ہے۔ لہذا پاکستان اپنی معیشت کو بہتر بنا سکتا ہے کیونکہ بہت سے دوسرے ممبر ممالک نے اپنی معیشتوں کو ترقی دینے کے لیے اس پلیٹ فارم کو استعمال کیا ہے۔

لہٰذا یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر محتاط اور جذبات سے پاک سفارت کاری کی جائے تو اس فورم کی رکنیت کو بہتر نتائج کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں پاکستان اور دولت مشترکہ کے درمیان تعلقات میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے۔ تاریخ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ 1974 میں جب پاکستان نے اس تنظیم سے علیحدگی اختیار کی تو یہ خسارے میں تھا اور اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ 1989 میں یہ اس تنظیم میں دوبارہ شامل ہوا اور اب تک آمر جنرل مشرف کی طرف سے ایمرجنسی کے اعلان کے بعد معطلی کے مختصر عرصے کے علاوہ اس تنظیم کا رکن ہے۔

/ Published posts: 3239

موجودہ دور میں انگریزی زبان کو بہت پذیرآئی حاصل ہوئی ہے۔ دنیا میں ۹۰ فیصد ویب سائٹس پر انگریزی زبان میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں ۸۰سے ۹۰ فیصد لوگ ایسے ہیں. جن کو انگریزی زبان نہ تو پڑھنی آتی ہے۔ اور نہ ہی وہ انگریزی زبان کو سمجھ سکتے ہیں۔ لہذا، زیادہ تر صارفین ایسی ویب سائیٹس سے علم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ اس لیے ہم نے اپنے زائرین کی آسانی کے لیے انگریزی اور اردو دونوں میں مواد شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ جس سے ہمارےپاکستانی لوگ نہ صرف خبریں بآسانی پڑھ سکیں گے۔ بلکہ یہاں پر موجود مختلف کھیلوں اور تفریحوں پر مبنی مواد سے بھی فائدہ اٹھا سکیں گے۔ نیوز فلیکس پر بہترین رائٹرز اپنی سروسز فراہم کرتے ہیں۔ جن کا مقصد اپنے ملک کے نوجوانوں کی صلاحیتوں اور مہارتوں میں اضافہ کرنا ہے۔

Twitter
Facebook
Youtube
Linkedin
Instagram