یونان، روم، ایران اورمصرکی قدیم تہذیب میں عورت کی حیثیت(حصہ دوم)یونان میں عورت کی حیثیت تاریخ کو اگر تفصیلاً پڑھاجائے اور یونان میں عورت کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ لگتا ہے کہ یونانی معاشرہ ترقی یافتہ معاشرہ مشہور تھا اس کے باوجود اس میں عورت کی حیثیت اخلاقی نظریات، قانونی حقوق اور معاشرتی برتاؤ ہر اعتبار سے گری ہوئی تھی۔اہل یونان کا عقیدہ ’’آگ سے جل جانے اور سانپ کے ڈسنے کا علاج ممکن ہے۔ لیکن عورت کے شرکا دارومدار محال ہے‘‘ جیساکہ بقول لیکی کہتےہیں.
’’بحیثیت مجموعی باعصمت یونانی بیوی کا مرتبہ پست تھا۔ اس کی زندگی مدت العمر غلامی میں بسر ہوتی تھی۔ لڑکپن میں اپنے والدین کی، جوانی میں اپنے شوہر کی، بیوگی میں اپنے فرزندوں کی، انتھینا کا قانون۔ یتیم لڑکیوں پر خاص طور پر مہربان تھا۔ لیکن بس ان باتوں کے سوا کوئی شے حقوق نسواں کی تائید میں نہیں پیش کرسکتی۔ افلاطون نے بلاشبہ مردوعورت کی مساوات کا دعوی کیا تھا۔ لیکن یہ تعلیم محض زبانی تھی۔ عملی زندگی اس سے بالکل غیر متاثر رہی۔‘‘یونانی عورت کی شادی اس کی مرضی کے بغیر کردی جاتی بعض دفعہ توباپ مرتے وقت اپنی بیٹی کی کسی کے حق میں وصیت کرجاتا تو بیٹی کو وہ وصیت پوری کرنا پڑتی تھی۔ بھائی کی موجودگی میں وراثت سے محروم رہتی۔ اکیلی ہوتی تو وارث بنتی مگر اس صورت میں اس کے لیے لیے ضروری ہوتا تھا کہ باپ کے ورثاء میں سے سب سے بڑے کی بیوی بنے اور اس سے جو بچہ پیدا ہو وہ نانا کی طرف منسوب ہوکر اس وراثت کا حقدار بنے۔
ازواج کا مقصد خالص سیاسی رکھا گیا تھا، یعنی اس سے طاقتور اولاد پیدا ہو جو حفاظت ملک کے کام آئےاہل یونان کے مطابق ایک دیوتا پروحی تھیس، نے آسمان سے آگ چرا کر زمین کے انسانوں تک پہنچادیا۔ دیوتاؤں کے بادشاہ زیوس کو یہ بات ناگوار گزری۔ اس نے زمین کےباسیوں سے اس نعمت کو چھیننے کے لیے پانڈورا نامی عورت تخلیق کرکے زمین پر بھیج دی۔ جس کے ساتھ ایک بکس تھاجسےPandoraBoxکہا جاتا تھا۔
زمین کے ایک دیوتا ایمپی تھیس نے پانڈورا کے حسن سے متاثر ہوکر اس سے شادی کرلی۔ پانڈورا نے زمین پر قیام کے دوران ایک روز اپنا بکس کھول دیا۔ جس کے اندر ہر قسم کی برائیاں بھری ہوئی تھیں اور بکس کھلتے ہی یہ برائیاں تمام زمین پر پھیل گئیں او رکبھی نہ ختم ہوسکیں۔
امیر علی لکھتے ہیں کہ یونانیوں کے ہاں عورت کی حیثیت ایک لونڈی کی سی تھی، جسے فروخت کیا جاتا اور دوسروں کے حوالے کردیا جاتا تھا۔ اسے ایک ایسی ناگزیر برائی سمجھا جاتا تھا جو امور خانہ داری او ر بچوں کی پرورش کے لیے ضروری تھی۔ روم میں عورت کی حیثیت روم میں مرد کی حکومت اپنی عورت پر جابرانہ تھی۔ اسے کسی قسم کا حق حاصل نہ تھا، وہ ایک لونڈی کی حیثیت رکھتی تھی۔ جس کا معاشرہ میں کوئی حصہ نہ تھا۔ اسے چوپائیوں کی طرح خریدا اور بیچا جاتا تھا۔
اسے شوہر کی ملکیت قرار دینے اور من جملہ جائیداد منقولہ کی طرح اسے بھی اس میں شمار کرتے تھے۔ عیش پسندی کی وجہ سے تجرد کی زندگی گزارتے تھے تاکہ زیادہ آسانی اور آزادی کے ساتھ اپنے شہوانی جذبات کی تشفی کرسکے۔ چنانچہ روم میں اسقاط حمل کوئی ناجائز فعل نہ تھا۔
مشہور رومی فلسفی مفکر ومدبر سنیکا سختی کے ساتھ رومیوں کی کثرت طلاق پر ماتم کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ اب روم میں طلاق کوئی بڑی شرم کے قابل چیز نہیں رہی عورتیں اپنی عمر کا حساب شوہروں کے تعداد سے لگاتی ہیں۔
اس دور میں عورت یکے بعد دیگر کئی کئی شادیاں کرتی جاتی تھی۔ ایران میں عورت کی حیثیت تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ایرانی معاشرے کی اخلاقی حالت انسان کو حیرت کے سمندر میں گم کردیتی ہے۔ ایرانی معاشرے کی اخلاقی حالت نہایت شرمناک تھی۔ انہوں نے رشتوں کے تقدس کو پامال کیا ہوا تھا۔ وہاں ادب، لحاظ اور پاکیزگی کا دور دور تک نام ونشان نہ تھا۔ باب کا بیٹی کو اور بھائی کا بہن کو اپنی زوجیت میں لینا کوئی غیر معمولی بات نہ تھی۔ ایران والوں کے نزدیک بیوی اور بہن کے مابین کوئی فرق نہیں رہا تھا اور مشرق کے نصاریٰ بھی نہ ماں کو ماں سمجھتے تھے اور نہ بہن کو بہن۔ بعض قبیلوں میں ایک عورت متعدد بھائیوں کی بیوی بن سکتی تھی مرد جتنی بیویوں کو چاہتا، طلاق دے دیتا، خواصوں اور داشتہ عورتوں کو رکھنے کا طریقہ عام تھا۔
ڈولنجر اپنی کتاب ’’شرفاء اور یہود‘‘ میں لکھتا ہے کہ عہد نبوی میں ایران کی حالت بہت پست تھی۔ شادی کا کوئی قانون نہ تھا۔
’’زنداوستا‘‘میں بیوی کے بارے میں کوئی قانون نہ ہونے کی وجہ سے مرد کئی بیویاں رکھتے اور داشتائیں اور دوسری عورتیں بھی ہوتیں، جن سے ناجائز تعلقات قائم رہتے۔ مصرمیں عورت کی حیثیت مصرمیں عورتوں کی کوئی قدر وقیمت نہ تھی۔ اسے حقیر اور ذلیل قوم سمجھتے اور اسے تمام انسانی حقوق سے محروم رکھا جاتا۔ ان ممالک میں عورت کے ساتھ غلاموں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔ روم میں عورت کو حقیر جان کر انسانیت کے تمام حقوق سے محروم کردیا گیا تھا۔ فدا حسین ملک کے بقول: ان تمام ممالک کا قدیمی جائزہ لینےکےبعدپتہ چلا کہ جو عزت اسلام نےدی ہےآج تک کوئی مذہب نہیں دےسکا۔
نیوز فلیکس 27 فروری 2021