The phonograph

In تاریخ
July 18, 2022
The phonograph

فونو گراف ایسی ایجادات میں سے ایک ہے جو عملی کے ساتھ ساتھ رومانوی بھی ہیں ۔ یہ ایجاد تاریخ میں ایک ایسے وقت پر ہوئی جب الیکٹرونکس اور فلسفے کے میدان میں زبردست سرگرمی موجودتھی ۔ اس نے دیکھنے اور سننے کی حس سے متعلقہ کئی دیگرا یجادات کو بھی جنم دیا۔ فونوگراف سمیت ، آواز پیدا کر نے والی مشینوں کی تخلیق کا ابتدائی مقصد تاریخی ریکارڈرزکو محفوظ بنانا تھا لیکن وقت گزرنے پر نئے مقاصد سامنے آئے اور فونوگراف جلدہی گلوکاراورآلات موسیقی کی آواز ریکارڈ کرنے کا اولین آ لہ بن گیا۔

ریڈ یو اور آوازوالی موشن پکچرز سے پہلے کئی عشروں تک فونوگراف ہی چھایا رہا۔ آواز ریکارڈ کرنے کا پہلا کامیاب سسٹم لیون سکاٹ نے 1855 ء میں بنایا ۔ تو” فوناٹوگراف” نامی یہ آلہ ایک قیف نما ماؤتھ پیس اور ایک سٹائلس ( نوکدارسوئی) کے ساتھ منسلک جھلی پرمشتمل تھا۔ یہ سوئی آوازکی لہروں کو دھوئیں سے کالے کیے ہوئے کاغذ پر کوڈ کی شکل میں لکھتی جو ایک گھومنے والے سلنڈر کے گرد لپٹا ہوتا تھا۔ 1859 ء کے بعد سے یہ آواز ریکارڈ کرنے کے آلے کے طور پرفروخت ہوا لیکن اس میں ایک نقص تھا یہ آواز کو دو بارہ نہیں سنا سکتا تھا ، یعنی اس میں پلے بیک کی خصوصیت موجود نہیں تھی ۔

سنہ 1877 ء میں تھامس ایلواایڈیسن نے ٹن فوائل فونو گراف بنایا اس کا تیار کردہ پہلا ہی ماڈل کارآمد ثابت ہو گیا۔ایڈیسن نے اپنے فونو گراف میں ماؤتھ پیس کی جگہ ری پروڈیوسر لگایاجو ایک زیادہ حساس صوتی آلہ تھا ۔ اس کا ایک سلنڈر نما ڈرم تھی جس پر ٹن فوائل (پنی ) چڑھی تھی۔ آلے کا ایک ماؤتھ پیسں ایک اسٹائلس کے ساتھ منسلک تھا جوگھو متے ہوے سلنڈرپر آواز کونقش کرتا جا تا ۔ ایڈیسن کی ایجاد کی بڑی خوبی آواز کودوباہ سناناتھی۔ آلے کے پہلے عملی مظاہرے میں ایڈیسن نے ماؤتھ پیس کے ساتھ منہ لگا کر کہا “میری ہیڈ اے لٹل لیمب” (یعنی حضرت مریم کے پاس ایک چھوٹا سا میمنا تھا )۔وہ اپنی ایجادکی کامیابی پر خوش تھا لیکن اپنی آواز دوبا رہ سن کر حیر ان بھی رہ گیا۔

پہلی باتیں کرنے والی مشین ایجاد کرنے کا سہرا ایڈیسن کے سر ہے۔ مگر وہ فونوگراف مشین بنانے والا پہلا شخص نہیں تھا۔ اس کا اولین کارآمد ڈیزائن پیرس کے چارلس کروس نامی شخص نے بنایا۔ اس نے اپریل 1877 ء میں” فرنچ اکادمی دی سائنسز” کو اپنی ایجاد پیش کی ۔ تب تک ایڈیسن کو فونو گراف پر کام کرنے کا خیال بھی نہیں آیا تھا اوروہ ٹیلی گرافی آلے پر کام میں مصروف تھا.سنہ 1878کا سارا سال ایڈ یسن نے اپنے فونو گراف کی نوک پلک سنوارتے ہوئےگزارا.اور لوگ اس کے عملی مظاہرے بڑے شوق سے دیکھنے آتے ۔ اس نے مختلف قسم کی آوازیں (مثلاَ باتیں کرنا، کھانسنا، ہنسنا) رہکارڈ کیں اور پھر جادوئی انداز میں انہیں دوبارہ سنوایا۔ کئی موقعوں پر مجمعے میں موجود کسی تماشائی نے کوئی عجیب و غریب آواز نکال کر…….مثلاَ گھوڑے کی ہنہناہٹ……، آلے کو بے کا رثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کاخیال غلط ثابت ہوا

سنہ1878 ء میں ایڈ یسن کا ذہن کسی اور چیز (لائٹ بلب بنانے) میں لگ گیا اور اس نے تقریباَ دس برس تک فو نو گراف پر کوئی توجہ نہ دی ۔ 1870 ء کی دہائی کے آخر اور 1880 ء کی دہائی کے اوائل میں مواصلاتی ٹیکنالوجیز کے شعبے میں آنے والی بہتریوں نے فونوگراف کو اور بھی زیادہ اہمیت دلا دی۔ ایڈیسن نے دوبارہ فونو گراف پر توجہ دیتے ہوئے اصرار کیا کہ اسے محض تفریح کی بجائے دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال ہونا چاہئیے۔

بیل ٹینٹر گراموفون 1887 ء میں ریلیز ہوا اور اس میں ایڈیسن کے اوریجینل ماڈل کی بنیاد پر کچھ بہتریاں لائی گئی تھیں ۔ 1891 ء میں سکے(کوائن) سے چلنے والے فونوگراف ہوٹلوں اور ادویات کی دکانوں پر نصب کیے گئے ۔کمرشل ریکارڈ نگ کی صنعت کا آغاز 1890 ء میں بتایا جا تا ہے ۔ موسیقار بیک وقت کئی فونو گراف پر ریکارڈر بنا کر فروخت کرتے تھے۔ 1901 ء میں گراموفون کمپنی نے روسی امپیریل اوپیرا کے چار سٹارز کے 60 ریکارڈرز تیار کیے۔ اس کے بعد یہ صنعت دنیا بھر میں پھیل گئی اور آج بھی مختلف صورتوں میں پھلا پھول رہی ہے۔

/ Published posts: 3255

موجودہ دور میں انگریزی زبان کو بہت پذیرآئی حاصل ہوئی ہے۔ دنیا میں ۹۰ فیصد ویب سائٹس پر انگریزی زبان میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں ۸۰سے ۹۰ فیصد لوگ ایسے ہیں. جن کو انگریزی زبان نہ تو پڑھنی آتی ہے۔ اور نہ ہی وہ انگریزی زبان کو سمجھ سکتے ہیں۔ لہذا، زیادہ تر صارفین ایسی ویب سائیٹس سے علم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ اس لیے ہم نے اپنے زائرین کی آسانی کے لیے انگریزی اور اردو دونوں میں مواد شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ جس سے ہمارےپاکستانی لوگ نہ صرف خبریں بآسانی پڑھ سکیں گے۔ بلکہ یہاں پر موجود مختلف کھیلوں اور تفریحوں پر مبنی مواد سے بھی فائدہ اٹھا سکیں گے۔ نیوز فلیکس پر بہترین رائٹرز اپنی سروسز فراہم کرتے ہیں۔ جن کا مقصد اپنے ملک کے نوجوانوں کی صلاحیتوں اور مہارتوں میں اضافہ کرنا ہے۔

Twitter
Facebook
Youtube
Linkedin
Instagram