سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بصیرت و تدبر، عزم و استقلال، وفاداری و فداکاری، ایثار و انفاق کا مرقع خیر، مجسم اسلام کے مردِ مومن کی سچی تصویر تھے، وہ ثانی اثنین فی الغار، وہ جانثارِ ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، پروانہ شمع رسالت، اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، ہر دور میں اہلِ حق اور متلاشیان راہ حق و ہدایت کے لئے اصحاب رسول میں سے نمونہ کامل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جنکے بارے میں حضرت اسد بن زرارہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ
’’میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توجہ فرمائی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نہ دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پکارا : ابوبکر! ابوبکر! روح القدس جبرائیل علیہ السلام نے مجھے خبر دی ہے کہ میری اُمت میں سے میرے بعد سب سے بہتر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ ‘‘(طبرانی، معجم الأوسط، 6/292، رقم : 6448)
آپ رضی اللہ عنہ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سمندر میں اپنی ذات کو فنا کر چکے تھے۔ دولتِ دنیا ان کے سامنے ہیچ تھی۔ اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لبوں پر مچلتا تو لہو کی ایک ایک بوند وجد میں آ جاتی، ہمہ وقت بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سراپائے ادب رہتے، اور سود وزیاں سے بے نیاز ہر وقت حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے اشارے کے منتظر رہتے کہ کب حکم ہو اور وہ اپنی جان و مال آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پر نثار کریں۔
ایک موقع پر جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ دینے کا حکم فرمایا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس جو کچھ تھا وہ سب کچھ لے کر حاضر خدمت ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابوبکر! اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا : میں ان کے لئے اللہ تعالی اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑ آیا ہوں۔‘‘(ترمذی، السنن، کتاب المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب فی مناقب ابی بکر و عمر رضی الله عنهما کليهما، 6 : 614، رقم : 3675)
گویا وہ بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بقول شاعر یوں عرض گزار ہوئے۔
اے تجھ سے دیدہ مہ و انجم فروغ گیر
اے تیری ذات باعث تکوین روزگار(اقبال)
جملہ صفات کے ساتھ ساتھ آپ رضی اللہ عنہ کی وفا شعاری اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ والہانہ عقیدت و محبت نے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آپ کو وہ مقام و مرتبہ عطا کیا جس پر ساکنانِ عرش بھی رشک کرتے ہیں۔
*صحابی رسول کا لقب *
قرآن مجید میں الحمد سے والناس تک ایک لاکھ چودہ ہزار یا چوبیس ہزار صحابہ کرام کی جماعت میں سے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی ایک فرد ہیں جنکی صحابیت پر اللہ رب العزت نے نص صریح کے ساتھ مہر تصدیق لگا دی۔ ان کو صحابی رسول، اللہ تعالی نے خود قرار دیا ہے۔ غار ثور میں ہجرت کے وقت حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا یارِ غار ہونے کا شرف آپ کو نصیب ہوا۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے سورہ توبہ کی آیات میں اس طرح شان بیان کی گئی۔
إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُواْ ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُواْ السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللّهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌo(التوبه، 9 : 40)
’’اگر تم ان کی (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلبہ اسلام کی جدوجہد میں) مدد نہ کرو گے (تو کیا ہوا) سو بے شک اللہ نے ان کو (اس وقت بھی) مدد سے نوازا تھا جب کافروں نے انہیں (وطنِ مکہ سے) نکال دیا تھا درآنحالیکہ وہ دو (ہجرت کرنے والوں) میں سے دوسرے تھے جب کہ دونوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) غارِ (ثور) میں تھے جب وہ اپنے ساتھی (ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) سے فرما رہے تھے غمزدہ نہ ہو بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے پس اللہ نے ان پر اپنی تسکین نازل فرما دی اور انہیں (فرشتوں کے) ایسے لشکروں کے ذریعہ قوت بخشی جنہیں تم نہ دیکھ سکے اور اس نے کافروں کی بات کو پست و فروتر کر دیا، اور اللہ کا فرمان تو (ہمیشہ) بلند و بالا ہی ہے، اور اللہ غالب، حکمت والا ہےo‘‘
اس میں ’’اذ یقول لصاحبہ‘‘ جب وہ اپنے ساتھی (ابوبکر صدیق) سے فرما رہے تھے کے الفاظ قرآن مجید میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا بیانِ فضیلت ہے اور یہ لقب کائناتِ صحابہ میں کسی اور کو عطا نہیں کیا گیا۔(سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مقام قربت و معیت، ڈاکٹر محمد طاہرالقادری)
*یار غار ہونے کا شرف*
جب قریش کی ایذاء رسانی حد سے بڑھ گئیں اور مسلمانوں کو ستانے میں انہوں نے کوئی کسر باقی نہ رکھی تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور حبشہ کے بعد پھر مدینہ ہجرت کا حکم فرمایا۔ اور خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکم خداوندی کے منتظر تھے، جب اللہ نے آپ کو حکم ہجرت دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے ہجرت کا ذکر فرمایا۔ تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پکار اٹھے :
’’اے اللہ کے رسول مجھے بھی معیت سے نوازئیے۔ ‘‘
ارشاد گرامی ہوا ’الصحبۃ‘ معیت تو ضرور ہو گی اس مصائب والے سفر میں تم میرے ساتھ ہو گے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔’’بخدا مجھے اس دن سے قبل معلوم نہ تھا کہ کوئی خوشی سے بھی آنسو بہاتا ہے میں نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس روز روتے دیکھا۔‘‘(سيرت ابن هشام، 1 : 485)
اور یوں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ہجرت کے وقت پیغمبر خدا کا ساتھی ہونے اور یار غار ہونے کا لازوال اعزاز حاصل ہوا اور غار ثور میں تین دن اور تین راتیں متوجہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور متوجہ علیہ ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔
*بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مقام و مرتبہ*
’’حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے جنگِ ذاتِ السلاسل کا امیرِ لشکر بنا کر روانہ فرمایا جب میں واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : (یارسول اﷲ!) عورتوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عائشہ کے ساتھ۔ میں نے پھر عرض کیا : مردوں میں سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اُس کے والد (ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ۔ میں نے عرض کیا : پھر اُن کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عمر بن خطاب کے ساتھ۔ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کے بعد چند دوسرے حضرات کے نام لئے۔‘‘(بخاری، الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي صلی الله عليه وآله وسلم، باب : من فضائل أبی بکر الصديق، 3/1339، الرقم : 3462)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جو محبت تھی وہ صرف اس وجہ سے نہ تھی کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے بلکہ یہ محبت اس وجہ سے بھی تھی کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی ذاتی خصوصیات، اپنے اعلی اوصاف اپنے کردار اور باکمال صلاحیتوں کی وجہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ میں بہت اونچا مقام رکھتے تھے۔
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا :
’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہمارے سردار، ہم سب سے بہتر اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے۔‘‘(ترمذی، السنن، کتاب المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب مناقب ابی بکر صديق رضی الله عنه 5 : 606، رقم : 3656)
’’امام زہری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا : کیا تم نے ابوبکر (صدیق رضی اللہ عنہ) کے بارے میں بھی کچھ کلام کہا ہے۔ انہوں نے عرض کیا : جی ہاں (یا رسول اﷲ!)۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ کلام پڑھو تاکہ میں بھی سنوں۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ یوں گویا ہوئے : وہ غار میں دو میں سے دوسرے تھے۔ جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر پہاڑ (جبل ثور) پر چڑھے تو دشمن نے اُن کے ارد گرد چکر لگائے اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو معلوم ہے کہ وہ (یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی شخص کو اُن کے برابر شمار نہیں کرتے ہیں۔ (یہ سن کر) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندانِ مبارک ظاہر ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے حسان تم نے سچ کہا، وہ (ابوبکر رضی اللہ عنہ) بالکل ایسے ہی ہیں جیسے تم نے کہا ہے۔‘‘(حاکم، المستدرک، 3 : 67، رقم : 4413)
*نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا ساتھی، دوست، نائب اور وزیر قرار دینا*
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہمہ وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت میں رہتے تھے جس کی وجہ سے آپ پورے اسلام کو سمجھتے تھے آپ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسلام کی روح کو سمجھا۔ دعوت کی حقیقت اور مزاج کا احاطہ کیا۔ ربانی منہج آپ رضی اللہ عنہ کے اندر جاگزیں ہو گیا اور اسی الٰہی منہج کی روشنی میں اللہ عزوجل، حیات و کائنات کی حقیقت اور وجود کے راز کی معرفت آپ نے حاصل کی عبادات، قیام اللیل، ذکر الٰہی، تلاوت قرآن پاک آپ کو انتہائی محبوب ہو گئیں۔ ہر وقت صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں رہنے سے نفس کی تطہیر اور روح کا تزکیہ عمل میں آیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے اخلاص اور للہیت نے آپ کو بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں وہ خاص مقام عطا کیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کو اپنی امت میں اپنا نائب اور دوست قرار دیا۔
’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگرمیں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن وہ میرے بھائی اور میرے ساتھی ہیں۔ ‘‘(بخاری، الصحيح، کتاب : المناقب، باب : قول النبی : لو کنت متخذا خليلا، 3/1338، رقم : 3456)
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ جو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں رہتے تھے سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرضِ وصال کے دوران صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھایا کرتے تھے، یہاں تک کہ پیر کا دن آ گیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز کی حالت میں صفیں باندھے کھڑے تھے۔ (اِس دوران) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے(اپنے) حجرہ مبارک سے پردہ اُٹھایا اور کھڑے ہو کر ہمیں دیکھنے لگے۔ ایسے لگ رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ انور کھلے ہوئے قرآن کی طرح ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تبسم ریز ہوئے۔ پس ہم نے ارادہ کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی خوشی سے نماز توڑ دیں پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی ایڑیوں کے بَل (مصلّی امامت سے) پیچھے لوٹے تاکہ صف میں شامل ہو جائیں اور گمان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لئے (گھر سے) باہر تشریف لانے والے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اشارہ فرمایا کہ تم لوگ اپنی نماز کو مکمل کرو اور پردہ نیچے سرکا دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُسی دن وصال ہو گیا۔‘‘(بخاری، الصحيح، کتاب : الأذان، باب : أَهْلُ الْعِلْمِ وَالْفَضْلِ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ، 1 : 240، رقم : 648)
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کسی قوم کے لئے مناسب نہیں کہ ان میں ابوبکر صدیق موجود ہوں اور اُن کی امامت اِن (یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) کے علاوہ کوئی اور شخص کروائے۔ ‘‘(ترمذی، السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : فی مناقب ابی بکر وعمر رضی اﷲ عنهما کليهما، 5 : 614، رقم : 3673)