دوستو’ دنیا کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب چند مٹھی بھر لوگوں نے بڑی بڑی سلطنتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا. آج کے اس آرٹیکل میں ہم عمر مختار کے بارے میں بات کرنے والے ہیں . عمر مختیار کی بہادری کی وجہ سے ان کو آج بھی صحرا کا شیر کہا جاتا ہے . اس بہادر کی کہانی شروع ہوتی ہے 1858 میں جب عمر مختار لیبیا کے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولتا ہے .
آپ اپنی اوائل عمری میں ہی باپ کے سائے سے محروم ہو گئے تھے آپ نے اپنی تعلیم علاقائی مدرسوں سے حاصل کی , پھر وقت گزرتا گیا اور سن1911 آگیا جب اپنی طاقت کے نشے میں چور اٹلی کی فوج نے لیبیا پر حملہ کردیا لیبیا اس وقت عثمانیہ سلطنت کا حصہ تھا . ترک فوج لیبیا کو بچانے میں ناکام ہو گئی .
لیبیا کے اہم ترین علاقے اٹلی کے قبضے میں چلے گئے. لیکن ابھی تو جنگ شروع ہوئی تھی جلد ہی اطالوی فوج کو لیبیا میں سخت جنگ کا سامنا کرنا پڑا. اطالوی فوج کے ساتھ سب سے سخت مزاحمت عمر مختیار کے گروہ نے کی اور اطالوی فوج کو شدید نقصان پہنچایا. جب اٹلی کی فوج نے لیبیا پر حملہ کیا تھا تو اس وقت ان کی عمر 52 سال تھی اور وہ ایک مسجد میں قرآن پاک کی تعلیم دیا کرتے تھے. آپ کو گریلا جنگ کا تجربہ پہلے سے ہی تھا اور آپ صحرائی جنگ کی بہترین حکمت عملیوں کے ماہر تھے. آپ مقامی جغرافیہ سے بھی واقف تھے لہٰذا آپ نے دشمن کو شدید نقصان پہنچایا. آپ گھات لگا کر حملہ کرتے اور اس کے بعد صحرا میں روپوش ہوجاتے. اطالوی آپ کے گروہ کی جانب سے سخت پریشان تھے.
1925 سے 1928 تک عمر مختار کی جدوجہد اپنے عروج پر تھی. لیبیا میں جہاں بھی اطالوی فوج موجود تھیں وہاں عمر مختیار نے حملے کیے . 1929 میں اطالوی فوج کی جانب سے جنگ بندی کر دی گئی. لیکن چند مہینوں بعد ہی جنگ دوبارہ شروع ہو گئی اس دوران اٹلی نے اپنی فوج کو کافی مضبوط کر لیا تھا. پھر جبل اخدار کا مکمل محاصرہ کر لیا گیا جہاں پر عمر مختیار اور ان کے ساتھی موجود تھے. محاصرے کے دوران مقامی غداروں اور مخبروں کی مدد سے 1931 میں صحرا کا شیر 73 سال کی عمر میں گرفتار کرلیا گیا اطالوی جنرل نے حکومت کو ایک رپورٹ پیش کی جس میں لکھا ہوا تھا کہ چھوٹے قد کا عمر مختیار انتہائی چالاک اور ذہین ہے. عمر مختیار کو ایک شرط پر عام معافی کی پیشکش بھی کی گئی کہ اگر وہ مجاہدین کو اٹلی کے خلاف جہاد سے روک دے, تو اس کو معاف کر دیا جائے گا.
اس وقت انہوں نے اپنا مشہور قول کہا
” جو انگلی اللہ کے ایک ہونے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتی ہوں, وہ کیسے کسی باطل کے حق میں لکھ سکتی ہے .” پھانسی سے ایک روز قبل عمر مختار نے کہا تھا ” مجھے فخر ہے کہ میں نے ایک شاندار مثال پیش کی ہے . ” اس طرح عمر مختیار کی تیس سالہ جنگ کا خاتمہ ہوگیا اور وہ جاتے ہوئے ہم سب کو ایک سبق دے گیا. چاہے دشمن کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو ہمیں صرف اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے.
Thursday 7th November 2024 10:29 am