اسلام کی نظر میں اگر زوجین صر ف عزت اور پاکدامنی کی طلب گار ہوں۔ تو اسلام نے جنسی معاملات کو صالح عبادات کا درجہ دے دیا ہے۔ اس پر بطور دلیل حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی حدیث پیش خدمت ہے۔حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ چند صحابہ کرام رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مالدار لوگ بہت سا اجر لے گئے۔ ہماری طرح وہ نماز پڑھتے ہیں۔ روزہ بھی رکھتے ہیں۔اور اپنے زائد مال سے صدقہ بھی کرتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا اللہ پاک نے تمہارے لیے صدقہ کرنے کا سامان پیدا نہیں فرمایا؟ یقیناً ہر بار “سبحان اللہ ” کہنا ایک صدقہ ہے۔ ہر بار “اللہ اکبر ” کہنا بھی ایک صدقہ ہے۔ “لا الہ الا اللہ ” کا ور د بھی ایک صدقہ ہے ۔ نیکی کا حکم دینا ایک صدقہ ہے۔ اور برائی سے منع کرنا بھی ایک صدقہ ہے ۔ یہاں تک تمہاری شرم گاہ اور میاں بیوی کا ملاپ میں بھی ایک صدقہ ہے۔ وہ کہنے لگے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے کوئی اپنی خواہش پوری کرے۔ کیا اس کو اس سے اجر ملے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر وہ اسے حرام طریقے سے استعمال کرے تو یقیناُ اس کا گناہ ہوگا۔ اگر وہ اسے جائز طریقے سے استعما ل میں لائے۔ یقیناً اس کو اجر ملے گا۔
امام نومی ؒ فرماتے ہیں جائز امور اچھی نیت کی وجہ سے یہ عمل نیکی بن جاتے ہیں۔
اگر جماع کرتے وقت مرد کی نیت عورت کا اللہ پاک کے متعین کردہ حدو د میں رہ کر حق زوجیت ادا کرنا یا نیک اولاد طلب کرنایا خود پاکدامن رہنا اور اپنی بیوی کو بھی عفیفہ رکھنا ہو تو اس کو اور اپنے آپ کو حرام نظر بازی ، فحش خیالات، جنسی تشکیل سے بچائے رکھنا۔ دیگر نیک مقاصد مدنظر ہوں تویہ عمل عباد ت بن جاتا ہے۔ لذت کی عام طور پر دو قسیمیں ہوتی ہیں۔ ایک شدید جسمانی لذت۔ اور دوسری لطیف روحانی لذت۔ ایک ہی نفس میں جب یہ دونو ں لذتیں اکٹھی ہوجائیں تو وہ خوشی اور راحت کے اس مقام تک پہنچ جاتا ہے ۔ جس کے آگے کوئی اور مقام نہیں ہوتا۔ دیگر شریعتوں کے نظر میں جنس گناہ اور گندگی سے بڑھ کر کچھ نہیں ۔
جو انسان کویہ احساس دلاتی ہے۔ کہ جنس خواہش پوری کرنا ایک حقیر اور نا پسندید ہ عمل ہے۔ جس کی وجہ سے آدمی اپنے آپ سے نفرت کرتا ہے ۔اور اس سے بھاگنا چاہتا ہے۔اسے کسی قسم کی کوئی لذت محسو س نہیں ہوتی۔ اس کے سامنے صرف دو راستے رہ جاتے ہیں۔
پہلا : جنسی تعلق کو حرا م سمجھتےہوئے اس سے خوف کھائے اور مکمل اجتناب کرے۔ جس کا لازمی نتیجہ انحراف ، کج روی اور فطری جذبات کو کچلنے کی صورت میں نکلے گا۔
دوسرا: یا پھر حرام ذرائع استعمال کرتے ہوئے جنسی بے راہ روی میں ڈوب جائے ۔ جس طرح غیر اسلامی مذہبی قومو ں کا حال ہے۔ مغربی قومیں اپنی عقیدے کے مطابق عورت کو مکمل برائی خیال کرتی ہیں۔ کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق اس نے شیطان کے ساتھ آدمؑ کو بہکانے میں تعاون کیا تھا۔ جس کے نتیجے میں پہلی غلطی سامنے آئی- اور پھر اس نے اپنی تمام جنس کو یہ غلطی وراثت میں دے دی۔