حضرت عمرؓ کا رنگ انتہائی سرخ اور سفید تھا رخسار،ناک اور آنکھیں نہایت خوبصورت تھیں ہاتھ پاوں بھاری تھے.جسم مضبوط ،قد لمبا تھا حضرت عمرؓ اس طرح نظر آتے جیسے وہ کسی چیز پر سوار ہوں اور لوگ پیدل ہوں آپؓ ایک طاقتور اور مضبوط انسان تھے آپ میں کسی قسم کی کوئی کمزوری دیکھائی نہ دیتی اپنی ڈاڑھی کو مہندی لگاتے چلتے تو تیز تیز قدم چلتے تھے.سیدنا عمرؓ کے والد کا نام خطاب بن نفیل تھا اور والدہ کا نام حنتمہ بنت ہاشم بن مغیرہ تھا.آپؓ پر بچپن ہی سے بہت ذمہ داریاں تھیں آپ کے والد بہت سخت آدمی تھے.
ان کا بچپن بہت کھٹن تھا آپ کے والد نے آپ کو اونٹ چرانے پر مامور کر دیا تھا یہ بچپن کے دن آپؓ پر سخت تھے انہی دنوں نے آپ کو شخصیت پر گہرا اثر ڈالا آپؓ فرماتے ہیں: کہ میرا باپ بہت سخت آدمی تھا میں کبھی ان کے لئے اونٹ چراتا اور کبھی لکڑیاں اکھٹی کرتا تھا
سیدنا عمرؓ کے اندر ایمان کی پہلی بار کرن اس وقت پھوٹی جب ہجرت ہبشہ کا وقت آیا حضرت عمر نے جب عورتوں کو دیکھا کہ وہ مکہ سے ہجرت کی تیاری کر رہی ہیں وہ سیدنا عمر اور ان جیسے دوسرے لوگوں سے پریشان تھیں جو ان کو تکالیف دیتے تھے یہ واقعہ حضرت عمر کے اسلام قبول کرنے سے پہلے کا ہے ان عورتوں کو دیکھ کر حضرت عمرؓ کا دل نرم پڑ گیا اور آپ ان عورتوں سے ہمدردانہ باتیں کرنے لگے وہ عورتیں اسطرح کا رویہ دیکھ کر حیران ہو گئیں.
سیدنا عمرؓ نے دل کی گہرائیوں سے اسلام قبول کیا تھا وہ اپنی تمام طاقت اسلام پر خرچ کرنا چاہتے تھے حضرت عمرؓ نے حضورﷺ ے سوال کیا کیا ہم حق پر نہیں ہیں تو حضورﷺ نے فرمایا کیوں نہیں،اللہ کی قسم بلاشبہ تم زندہ رہو یا موت آجائے تم حق پر ہوـ سیدنا عمرؓ نے فرمایا تو پھر چھپ کر رہنے کا کیا مطلب آج ہم کھل کر سامنے آئیں گے.سیدنا عمرؓ ایک دانا فصیح و بلیغ عمدہ رائے رکھنے والے طاقتور اس وجہ سے قریش نے انہیں اپنا سفیر مقرر کر رکھا تھا
نیوز فلیکس 26 فروری 2021