چند دن پہلے آپ نے Absolutely Not کی تو خوب دھوم سنی ہو گی۔ عمران خان کے امریکی ٹی وی کو دئیے گئے انٹرویو میں جب پاکستان سے فضائی اڈوں کا مطالبہ کیا گیا تو بدلے میں ملنے والے بیان نے اینکر پرسن کو حیرانی میں مبتلا کر دیا۔ اسے یقین تھا کہ پاکستانی حکمران ٹی وی پر بیٹھا جب لائیو انٹرویو دے رہا ہو گا تو تاریخی معمول کے مطابق ہاں بولے گا یا پھر شاید بات کو گھما پھرا دے گا۔ لیکن اس کو کیا معلوم تھا کہ اس بار تو ساری گیم ہی الٹ جائے گی۔ اس واضح نا نے تو عالمی منظر نامے پر اک کھلبلی مچا کر رکھ دی۔ کھلبلی مچتی بھی کیوں نہ کیونکہ ہمیشہ سے ہمارا یہ معمول رہا کہ جب بھی امریکہ مدد کے لیے ہمارے پاس آیا تو ہم نے ان کے لیے دل و جان سے انکی خوب آہ و بھگت کی اور ان کو ہر ممکن بلکہ نا ممکن مدد بھی فراہم کی سوائے چند اک مواقعوں کے۔
دل میں یہی تمنا لیے اس دفعہ بھی پہلے امریکی انٹیلیجنس کا ڈائریکٹر اور بعد میں ٹی وی اینکر آئے لیکن دونوں کو کوئی خاص لفٹ نہیں کروائی گئی۔ ماضی میں کیا کیا ہوتا رہا آئیے پہلے اک نظر اس پہ ڈال لیتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد اس وقت کی دونوں سپر پاورز کے انویٹیشنز پاکستان کو موصول ہوئے۔ سوویت یونین کے تعلقات پہلے سے ہی انڈیا خاص طور پر نہرو فیملی سے اچھے ہونے کی بنا پر اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم نے امریکہ کو منتخب کیا۔ جس پر تب سے لیکر آج تک تنقید ہوتی آئی ہے۔ خیر تب کے حالات کے مطابق جو ان کو بہتر لگا انہوں نے کیا۔ ہمیں انڈیا کے مقابلے میں اک ایسا طاقتور حلیف چاہیئے تھا جو مشکل میں ہماری مدد کر سکتا ۔ دوسری جانب امریکہ کو ساؤتھ ایشیاء میں اک ایسا حامی ملک چاہیئے تھا جو اس خطہ میں سوویت یونین کا پھیلاؤ روکنے میں اسکا مددگار ثابت ہو۔ لہٰذا لیاقت علی خان کے دور میں پہلی بار امریکہ نے پاکستانی سر زمین میں اڈے مانگے لیکن لیاقت علی خان نے انکار کردیا۔ یہ انکار دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں سرد مہری کا باعث نہ بنا جیسا کہ عموماً ہوتا ہے۔ اس کے بعد ایوب خان کے دور تک پاکستان مختلف امریکی فوجی اتحادوں میں ان کے ساتھ شامل ہوا جسکی بدولت پاکستان کو فوجی اور معاشی امداد ملتی رہی۔ اسی دوران میں حسین شہید سہروردی وہ پہلا پاکستانی وزیر اعظم تھا جس نے 1956 میں پشاور کا ائیر سٹیشن امریکہ کو لیز پر دیا تاکہ وہ سوویت یونین کی جنوبی ایشیاء میں بڑھوتری پر اک نظر رکھ سکے۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے اک ایسا سلسلہ شروع ہو جو کہ اکیسویں صدی کے اوائل تک جاری رہا۔ ایوب خان کے دور میں تو باہمی تعلقات نقطہء عروج تک جا پہنچے وہ تو پاکستان- انڈیا کی 1965 کی جنگ شروع ہو گئی جس نے امریکی عیاری کو ظاہر کر دیا نہیں تو شاید وہ اک وقفہ جو اس جنگ کے بعد رونما ہوا کبھی نہ ہوتا۔ اسی اک مختصر وقفہ کے دوران پاکستان نے امریکہ کے علاؤہ دوسرے ممالک کے ساتھ بھی تعلقات بڑھانے شروع کر دئیے۔
پاکستان-انڈیا کی 1965 اور 1971 کی یکے بعد دیگرے جنگوں نے امریکی دوستی کا بھانڈا پھوڑ دیا تھا۔ جسکی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں آتے ہی سوویت یونین اور چین کے ساتھ تعلقات استوار کرنے شروع کر دئیے تھے۔ بھٹو کو بہرحال یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اس وقت بھٹو نے پہلے والی غلطی نہ دہرائی۔ بھٹو نے چین اور سوویت یونین کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات بحال رکھے جسکی وجہ سے اس نے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے امریکہ اور چین کے تعلقات کی راہ ہموار کی۔ بھٹو سوویت یونین سے انویسٹمنٹ لے کر آیا جسکی بدولت پاکستان میں سٹیل مل لگی۔ اس دوران میں چین ابھی اتنا طاقتور اور اہم نہیں تھا کہ اس پر مکمل انحصار کیا جاتا۔ دوسرا بھٹو کیپیٹل ازم کی بجائے سوشلزم کو زیادہ اہمیت دیتا تھا۔ اگرچہ اس دورانیہ میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان کوئی خاص پیش رفت نہ ہوئی لیکن پھر بھی امریکہ نے بھٹو کو اپنے پیش نظر رکھا جسکی سب سے بڑی وجہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام تھا۔ ایوب خان کے دور کے بعد تعلقات جس سرد مہری کا شکار ہوئے تھے وہ ضیاء الحق کے آنے کے بعد گرمجوشی میں بدل گئے۔ ضیاء الحق پاکستان کا شاید پہلا حکمران تھا جس کو امریکہ میں فرسٹ کلاس پروٹوکول دیا گیا۔ وہ ڈیمانڈز جو ہوائی اڈوں پر منحصر ہوتی تھی اب کی بار بہت آگے چلی گئیں۔
قصہ مختصر یہ کہ پاکستان اک پرائ جنگ میں کود پڑا جس میں نہ صرف اڈے دئے گئے بلکہ انٹیلیجنس، ٹریننگ کے ساتھ ساتھ لڑنے کے لیے مجاہدین بھی فراہم کیے گئے۔ اس کے بدلے میں خوب امداد بھی ملی۔ سوویت یونین کی فوجوں کے انخلاء کے ساتھ ہی پاکستان پر شدید معاشی پانبدیاں لگا دی گئیں جو کہ اکیسویں صدی تک جاری رہیں۔ مجاہدین کی سوویت یونین کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے فوراً بعد وہی امریکہ جس کو پتہ تھا کہ پاکستان ایٹمی پروگرام پر کام کر رہا ہے نے فوراً پاکستان پر شدید قسم کی معاشی پانبدیاں لگا دیں۔ جنگ کے بدلے میں ملنے والی فوجی اور معاشی امداد کو فوراً بند کر دیا گیا۔ مختصر یہ کہ بیسویں صدی کا آخری عشرہ پاکستان کے لیے بہت تنگدستی والا عشرہ تھا۔ وہ تو بھلا ہو چین اور سعودی عرب کا جنہوں نے اس مشکل ترین صورتحال میں بھی پاکستان کا ساتھ دیا۔ 9/11 کے بعد افغانستان میں وار آن ٹیرر شروع کی گئی اور وہی امریکہ جو 1989 کے بعد ہمرے طرف سے منہ فیر گیا تھا اک بار پھر بھاگا بھاگا پاکستان کے پاس آیا اور مدد طلب کی جس میں فوجی اڈے سرفہرست تھے۔ اس بار انکا خیال تھا کہ پاکستان یا تو فوجی اڈے نہیں دے گا یا پھر سخت شرائط منوائے گا جس کہ لیے وہ پہلے سے ہی تیار تھے۔ لیکن قربان جائیں اپنے جنرل پرویز مشرف سے جنہوں نے سب کی سب امریکی شرائط کو من و عن یہ کہہ کر قبول کر لیا کہ پاکستان کے پاس اس کے علاؤہ اور کوئی آپشن ہی نہیں تھی۔ وہ امریکہ جو اپنی شرائط میں سے کچھ کے مانے جانے پر مرکوز تھا اسکی سب شرائط کو تسلیم کر لیا گیا۔ اس بات پر امریکی خود بھی شسدر رہ گئے کہ وہ پاکستان جس کو ہمیشہ ہم نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا اس نے پھر ان کا بھرپور ساتھ دینے کی حامی بھر لی۔ خیر یہاں سے نا تو امریکی پھولے نہ سما رہے تھے اور نہ ہی مشرف کی کابینہ۔ یہاں سے پاکستان میں ڈرون حملوں اور ڈو مور کا اک ایسا سلسلہ شروع ہو جو کہ عمران خان کے آنے تک جاری رہا۔
یہ ڈرون حملے اور ڈو مور کا تانا بانا مشرف دور سے شروع ہوا اور پیپلز پارٹی کے دور میں اپنے عروج پر پہنچا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اک طرف تو ڈرون حملوں کی اجازت دیتی رہی تو دوسری طرف انکو تنقید کا نشانہ بھی بناتی رہی۔ وہ تو بعد میں وکی لیکس کے دوران یہ واضح ہوا کہ پیپلز پارٹی نے تو ان ڈرون حملوں کے بارے میں ڈبل سٹینڈرڈز پالیسی اختیار ہوئی تھی۔ ہماری جنریشن کو جب تھوڑی بہت سیاست کی سمجھ آنے لگی تب سے ہم تو امریکہ کی جانب سے اک ہی آرڈر سنتے آئے ہیں “ڈو مور”. یہ ڈو مور کا سلسلہ بش جونیئر سے شروع ہوا اور اب شاید اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ جارج بش، کی دو ٹرمز اور اس کے بعد باراک اوباما کی دونوں ٹرمز تک یہ اپنے فل آب و تاب سے جاری رہا۔ ہمارے جیسے بچے تب سوچتے تھے کہ کیا مجبوری ہے کہ اک امریکی صدر یا کوئی امریکی حکومت کا نمائندہ جب بھی پاکستان آتا ہے یا یہاں سے ہمارے حکمران وہاں جاتے ہیں تو ڈو مور کی ہی آواز آتی ہے۔ ویسے کیسی پالیسی تھی کہ پاکستان نے اپنے ہی اڈے دیئے اور اپنے ہی لوگ ان کے ہاتھوں سے مروا رہے تھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ جو دہشت گرد تھے ان کے خلاف آپریشن کیا جاتا لیکن کسی نے سوچا کہ اب تک تقریباً اسی ہزار مرنے والے پاکستانیوں میں سے کتنے دہشت گرد تھے اور کتنے معصوم۔ عمران خان نے ہماری جنریشن کو اسی لی ہی فیسینیٹ کیا کہ یہ بندہ واحد تھا جس نے ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی کی مخالفت کی۔ اسی لیے پاکستانیوں خاص طور پر یوتھ نے اسکا ساتھ دیا کہ یہ بندہ کچھ کرے گا۔
ہاں اگرچہ حکومت میں آنے کے بعد عمران خان نے اپنے کئی وعدے پورے نہیں کیے لیکن اک بات پر قائم رہا کہ امریکہ کے ساتھ برابری کے تعلقات ہوں گے اگر ہوئے تو۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آیا تو اس نے آتے ہی پاکستان کے متعلق اپنے پہلے ٹویٹ میں کچھ ایسی زبان استعمال کی جسکا عرف عام میں مطلب ڈو مور تھا۔ لیکن جوابی ٹویٹ میں عمران خان نے بھی وہی لہجہ استعمال کیا ۔ جب عمران خان امریکی دورے پر گیا تو معمول سے ہٹ کر پاکستان کی نمائندگی کی۔ اس نے روایتی حکمرانوں کی طرح امداد کی بھیک نہیں مانگی یہاں تک کہ امداد کا لفظ تک استعمال نہیں کیا۔ پچھلے ہفتہ میں امریکی ٹی وی دئیے جانے والے انٹرویو میں عمران خان نے امریکہ کے متعلق وہی رویہ، وہی پالیسی اختیار کی جسکا ذکر پچھلے بیس سالوں سے کرتا آرہا تھا۔ خیر عمران خان نے absolutely not تو کہہ دیا اب امریکہ اور ایورپ کی جانب سے اسکا ری ایکشن بھی آسکتا ہے جس کے لیے پاکستان کو تیار رہنا ہوگا۔ عمران خان نے لیاقت علی خان کی طرح جو پالیسی آج اختیار کی اگر یہ پالیسی پاکستانی حکمران شروع سے اختیار کرتے تو آج حالات مختلف ہوتے۔ آج پاکستان اپنے قدموں پر کھڑا ہو چکا ہوتا۔ آج پاکستان آئی۔ایم۔ایف، ورلڈ بینک اور فیٹیف پر انحصار نہ کر رہا ہوتا کیونکہ انہی اداروں اور امریکہ نے شروع سے پاکستان کو اپنی امداد پر لگا دیا جسکی وجہ سے ہم آج تک معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑے نہ ہو سکے اور نہ ہی ہم نے اس کے لیے تگ و دو کی۔
شوکت علی۔۔۔۔