Skip to content

ماں کا کردار

محترم قارئین!
اللہ تعالیٰ نے ابتدائے آفرینش سے آدم و حوا علیھما السلام کے واقعہ میں نسل ِ انسانی کی افزائش اور اس میں بہت سے تربیت کے پہلو رکھے ہیں۔مگر زیرِ نظر مضمون میں “ماں کا کردار” ایک معاشرے میں کیا ہونا چاہیے زیر بحث ہے ۔ممتا فطری طور پر ہر عورت میں موجود ہوتی ہے اور اسے “ماں “بننا ہی ہوتا ہے تو کیوں نہ جو مائیں بن چکی ہیں ان کی تربیت کچھ اس طرح سے کی جائے کہ وہ بچوں کی کردار سازی میں اہم کردار ادا کریں جوکہ ماں کی اوّلین ذمہ داری ہوتی ہے۔ یقین جانیے آج ہمارے اندر جو صلاحیت موجود ہے وہی صلاحیت ماں اور بچوں میں آجائے تو بچے ہماری عمر کو پہنچ کر کچھ آگے بڑھنے کی سوچیں گے۔

ماں کا مقصد بچے کو انسان بنانا ہے۔ بچے کا ذہن شفاف آئینہ کے طرح ہوتا ہے۔ماں اگر بچے کی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کرتی ہے تو یہ بچہ بڑا ہو کر معاشرے کا نہایت اہم اور کارآمد رکن بن جاتا ہے اور معاشرے کی اصلاح ، بقا ءوامن کے لیے ہر وقت کوشاں رہتا ہے۔ماں جتنی دین دار اور مذہبی خیالات سے مزین وآراستہ اوربلنداخلاق اور علم والی ہو گی بچے پر بھی اتنے ہی یہ اثرات مرتب ہوں گے ۔ایمان پر استقامت ،علمی نوعیت کے خیالات،ہر بات پر دلیل اوراسی طرح اخلاقی پہلوؤں پر نظر ڈالی جائے توجھوٹ سے بچنا،غلط بیانی نہ کرنا،ہر حال میں سچ بولنا،کسی کی چیز بغیر اجازت نہ لینا،دوسروں کی مدد کرنا،وعدہ پورا کرناجیسے اہم تصورات صرف ماں ہی اپنی تربیت کاحصہ بناسکتی ہے۔بہر حال معاشرے میں اسلام کی مسخ شدہ صورت کو ترتیب دینے کی محرک ماں ہے۔وہ اپنی اولاد کی بہترین مدرسہ ہے۔کیونکہ عمدہ پرورش اور تربیت کے بغیر ہر بچہ ناسمجھ اور گنوار رہتا ہے۔بچے پھولوں کی طرح نازک ،خوبصورت اور حساس ہوتے ہیں۔ان کی نگہداشت ،پرورش بھی اتنی ہی ضروری اور محنت طلب ہے۔

ماں کی تربیتی نکات کا جائزہ لیا جائے تو بچوں کو ذہنی اور علمی بنیادوں پر اسے علم ہو نا چاہیے کہ اس کا دین ایک مکمل دین ہے۔اٹھنا بیٹھنا،سونا جاگنا، پڑھنا لکھنا ہر عمل دین کے احکامات اور تعلیمات کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہونا چاہیے ۔ان نکات کے تحت ماں کی تربیت بچوں کی ذہنی ، فکری اور نظری طور پر مضبوط سے مضبوط کرتی چلی جاتی ہے ۔کہتے ہیں کہ عمارت کی بنیاد صحیح ڈالی جائے تو وہ مضبوط اور پائیدار ہوتی ہے۔لیکن اگر بناطد ہی کمزور ہو تو پھر وہ عمارت منہدم ہوجاتی ہے ۔یہی حال بچوں کا ہے ،اگر ان کی بنیاد مضبوط اور صحیح خطوط پر ہو تو بچے بہترین کردار و شخصیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ۔ایسے میں ماں کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔اس طرح کی صورتحال میں ایک ماں کو کس پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ؟ اور جب بچہ قرآن کا ناظرہ نہ کرسکے اور دیگر علوم دینیہ حاصل نہ کرسکے تو پھر اس پریشانی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور پھر یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ والدہ اور والد دونوں پریشان ہوتےہیں اور پھر مجبوراً کسی ایسی غیر تربیت یافتہ افراد کے حوالہ کردیا جاتا ہے جو اپنی سوچ و فکر کو بچوں کی خالی سلیٹ پر رقم کردیتے ہیں ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس میں آج تک ہم الجھے ہوئے ہیں اور اس کی نوک پلک کو درست کرتے ہوئے صرف اس بات پر اکتفا کرلیتے ہیں ہمارے بچے ہیں کسی اور کے تو نہیں ہیں ہم جیسے چاہے ڈگر پر ان کو چلادیں ۔لہذا ایسی ماؤں سے خصوصی طور پر التجا کی جاتی ہے کہ پہلے وہ خود کو اسلامی رنگ میں رنگ دیں اور پھر بچوں کے لیے بھی صحیح ودرست نہج کا انتخاب کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *