*ایمان کامل کی چار علامات*
*پہلی علامت*
ایمان کامل کی پہلی علامت یہ ہے کہ اللہ کی رضا کے لئے دے ۔
*وضاحت*
انسان جب کسی کو کوئی چیز دے تو اللہ کی رضا کے لئے دے ، کسی کو پیسے دے، کسی کو کوئی ضرورت کی چیز دے، کوئی استعمال کی چیز دے، تو مقصد اللہ کی رضا ہو۔ مثلاً ہر آدمی صدقہ خیرات دیتا ہے تو اس میں نیت دکھلاوا نہ ہو بلکہ اللہ کو راضی کرنا مقصود ہو۔اپنے گھر والوں کے لئے کوئی چیز خریدے تو اس میں یہ نیت ہو کہ اللہ نے مجھ پر کچھ حقوق رکھیں ہیں میں ان کو ادا کرنے کے لئے یہ خرید رہا ہوں۔ مقصد یہ ہے کہ نیت میں اللہ کو راضی کرنا مقصود ہو۔
*دوسری علامت*
کسی سے کوئی چیز روکے تو اللہ کی رضا کے لئے ۔
*_وضاحت_*
کسی سے کو کوئی چیز نہ دے اس لئے کہ اس میں اللہ کی رضا نہیں۔مثلاً کوئی کچھ نقد رقم مانگے ناجائز کام کے لئے، سود پر آگے دے نے کے لئے مانگتا ہو، یا رشوت دینے کے لئے مانگتا ہو، یا جوا کھیلنے کے لئے مانگتا ہو، یا شراب خرید نے کے لئے مانگتا ہو، ان سب صورتوں میں آدمی اسے رقم نہ دے اس لئے کہ اللہ کی مرضی نہیں اس میں۔ ق۔ یہ روکنا اللہ کے لئے ہے۔اسی طرح کوئی بینک سے سود پر قرض لینے کے لئے کہتا ہے آپ میری ضمانت دیں۔ اب یہ ضمانت نہیں دیتا اس لئے کہ اللہ نے سود کے معاملے سے منع کیا ہے۔ اب یہ منع کرنا اللہ کے لئے ہے
*-تیسری علامت-*
کسی سے محبت کرتا ہے اللہ کی رضا کے لئے۔
*-وضاحت-*
اللہ اور اللہ کے رسول سے محبت کرنا یہ اس لئے ہے کہ اللہ نے اس محبت کا حکم دیا ہے ۔ کسی بزرگ والی سے محبت کرنا ، لیکن یہ محبت دیکھاوے کے لئے نہ ہو کہ لوگ مجھے کہیں گے کہ بڑا آدمی ہے، اس کی فلاں بزرگ سے بڑا تعلق ہے۔ بلکہ اپنی اصلاح کے لئے محبت ہو۔ اسی طرح ماں باپ سے محبت ہو، کہ اس محبت پر بہت بڑا اجر اور ثواب ہے۔بہن، بھائیوں سے محبت، رشتے داروں اور دوستوں سے محبت، یہ سب اللہ کی رضا کے لئے ہو نہ کہ دنیوی مفاد کے لئے۔
*-چوتھی علامت-*
کسی سے ناراض ہو ، بغض ہو اللہ کی رضا کے لئے۔
*-وضاحت-*
کسی سے ناراضگی اپنے مفاد کے لئے نہ ہو بلکہ اللہ کے لئے ہوکافر سے بغض در حقیقت اس کے کفر سے بغض ہوتا ہے۔ جیسے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا معمول دیکھ لیں کہ حضرت وحشی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کا قاتل لیکن جب ایمان لایا تو وہی “`رضی اللہ عنہ“` بنا ۔
یہ چار علامات ہیں ایمان کامل کی
*حدیث*
*-من اعطی للہ ومنع للہ و احب للہ و ابغض للہ فقد استکمل الایمان۔ اوکما قال علیہ السلام-*