ایک حدیث میں آتا ہے کہ قیامت والے دن ایک آواز دینے والا آواز دے گا ” عقل والے لوگ کہاں ہیں؟ عقل والے کہاں ہیں؟ لوگ سوال کریں گے کہ یہ عقل والے کون ہیں؟ جواب دیا جائے گا وہ لوگ جو اللہ کو کھڑے،بیٹھے اور لیٹے ہوئے یاد کرتے تھے .اور آسمان و زمین کی تخلیق پر غور کرتے تھے. اور کہتے تھے خدایا تو نے ان کو بے کار نہیں بنایا. تو پاک ہےپس ہمیں جہنم سے بچا لے. تو یہ ہیں عقل والے لوگ. اس سارے غور و فکر کے نتیجے میں وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی ہیبت کے قائل ہوتے ہیں اور ہر وقت انہیں اپنے آخرت اور انجام کی فکر رہتی ہے.
حضرت ابوہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص جو کہ مسلمان نہیں تھا چھت پر لیٹا ہوا تھا. آسمان پر ستاروں کو دیکھ رہا تھا. دیکھتے دیکھتے اس کے دل پر اللہ تعالی کی ایسی ہیبت طاری ہوئی ،ایسا عظمت کا احساس پیدا ہوا کہ وہ بولا “خدا کی قسم مجھے یقین ہے کہ تمہارا پیدا کرنے والا کوئی ہے تم خود نہیں بنے ہو. اے اللہ مجھے بخش دے تو جو بھی ہے تو مجھے بخش دے .وہ شخص مسلمان نہیں تھا اسے بلکل نہیں پتا تھا پیغمبر کون ہے ؟قرآن کیا ہے؟خدا کیا ہے؟ وہ اپنے اردگرد کی سے نشانیوں کو دیکھ کر رب کو ڈھونڈتا رہا .اور اسے پہچانے کی کوشش کرتا رہا. کیونکہ جو واقعی اللہ تعالی کی عظمت کو جان لیتا ہےوہ خود کو جان لیتا ہے. ایک حدیث میں آتا ہے کہ
جو شخص اکیلا بیٹھے خدا کو یاد کرے وہ اس طرح ہے جس طرح کفار کے مقابلے میں اکیلا چل پڑا ہو.
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ
سات آدمی ایسے ہیں جو قیامت کے روز خداکے عرش کے سائے میں ہوں گے جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوتگا. اور ان میں سے ایک شخص وہ ہوگا جو تنہائی میں اللہ تعالی کو یاد کرتا ہے .اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں.
حضرت عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کثرت سےپڑھتے تھے
(سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَمِلْءَ الأَرْضِ وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَىْءٍ بَعْدُ) ’’اللہ نے سن لی جس نے بھی اس کی تعریف کی، اے اللہ! اے ہمارے رب!تیرے ہی لئے ( سب ) تعریفیں ہیں، آسمانوں اور زمین کے بھراؤ کے برابر اور ہر اس چیز کے بھراؤ کے برابر جوتو اس کے بعد چاہے۔