بے چین روحیں

In ادب
April 30, 2021
بے چین روحیں

بے چین روحیں

قانون ہر ملک کا ہار سنگارہوتا ہے جس ملک میں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے وہاں امن اور شانتی کے چراغ روشن رہتے ہیں ہر طرف سکون ہی سکون ہوتا ہے لوگ خوشحال اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں مہر و محبت کی بیلیں پروان چڑھتی ہیں ہر شاخ پر امن کی فاختائیں بولتی ہوئی نظر آتی ہیں اگر قانون کی گرفت مضبوط ہوگی تو ہر ایک انسان کی جان و مال اور عزت محفوظ رہے گی ہر مجرم اپنے گناہوں سے تائب ہوکر تبلیغ حق کرے گا سورج ہر دن خوشیوں کا پیغام لے کر طلوع ہوگا پکھیرو خوشیوں کے من بھاون گیتوں سے دن کا آغاز کریں گے ظلم و ستم کا راج اپنے اختتام کو پہنچے گا .

مسجدوں سے اللہ اکبر کی صدائیں پھر سے بے خوف و خطر گونجیں گی کوئی پہرے دار اپنی نماز قضا نہیں کرے گا اسلحہ ساز اپنے ہی کاروبار پر پچھتائے گا شیعہ سنی کا لفظ لغت سے نکل کر صرف مسلمان بن کر انمٹ ہوجاے گا کسی مظلوم کی عزت سے کھیلنے والے اپنے انجام سے بچ نہیں پائے گیں قاتل کو پھانسی سے لٹک کر نشان عبرت بننا ہوگا حق تلفی کا نام ہی مٹ جائے گا تفرقہ کی سلگتی آگ بجھ کر خاکستر ہو جائے گی مہرو محبت کی سوغاتیں ہر کوئی بانٹنے نکلے گا مہرومحبت کو نئے عنوان ملیں گے نہ ہی کوئی سڑکوں پر نکل کر اپنے حق کی خاطر اپنے کمزور اور نحیف کندھوں پر پولیس کی لاٹھیوں کا درد محسوس کرے گا مسکراہٹوں کے سیلاب ہر چہروں پر نظر آئے گیں آنسوؤں کے سمند ر سوکھ کر بے حس ہوجائے گیں اور ملک ترقی کی طرف گامزن ہوگا نہ ہی کوئی بے روزگار اپنی موت خود تجویز کرنے کیلئے پھندا خریدے گا نہ ہی کوئی ماں اپنے بچوں سمیت اپنے آپ کو دریا کی بے رحم لہروں کے سپرد کرے گی نہ ہی کوئی مظلوم لڑکی اپنی عزت لٹنے پر انصاف نہ ملنے کے پاداش میں خود کو آگ میں جل کر مرنے کو ترجیح دے گی جس ملک میں قانون پر عملدرآمد نہ ہوگا اسے جنگل کا قانو ن کہتے ہیں جو طاقتور ہوتاہے اس کی شاہی ہوتی جس کو چیر پھاڑ کر کھا جائے .

انسانیت حیوانیت میں تبدیل ہوجاتی ہے آزادی غصب ہوجاتی ہے انسان پنچھی کی طرح مقید ہوجاتا ہے اور باہر وحشی درندے خونخوار بھیڑیئے انسانی شکلوں میں دندناتے پھرتے ہیں وہاں نہ چین ہوگا نہ سکون فسق و فجورکا دور ہوگا اور جرائم میں اضافہ ہوتا رہے گا مجرم دندناتے پھرتے رہیں گے حکمران کٹھ پتلی ہونگے ہمارے ملک میں دو فارمولے ایسے ہیں جن کی بدولت انصاف کا قتل ہوجاتاہے مجر م محرم بن کر چھوٹ جاتے ہیں اور محرم مجرم بن کر آہنی سلاخوں کے پیچھے ناحق مقید ہوجاتے ہیں وہ فارمولے جو عرصہ سے ہمارے ملک پر حاوی ہیں ایک سفارش اور دوسرا پیسہ پیسہ ہردور میں بڑا مضبوط اور طاقتور رہا ہے جس نے انصاف کی منڈی میں انسانوں کے ضمیروں کی خرید و فروخت کی ہے یہی پیسہ ظالم اور جابروں کے ہرعیبوں پر پردہ ڈال کر ان کومعصوم بنا کر پیش کرتا رہا ہے اور ان کو زاہد و عابد کے القابوں سے نوازتا ہے پیسے کا نام اتنا بلند ہوگیا ہے .

کہ کیا کہنے جیل میں ہو تو نمبردار کہلاتاہے ہر سیاہ و سفید کاملک ہوتاہے اس کے بغیر کوئی قیدی ادھر ادھر حرکت کرنے سے قاصر رہتا ہے یہی پیسہ بڑے بڑے مجرموں کو ہسپتال کی سہولیات فراہم کراتاہے اور اپنی مرضی کے ڈاکٹر تجویذ کراتاہے حوالات میں بھی چودھری کا کردار نبھاتاہے پیسہ ڈیوڈ جیسے قاتل کو آزاد کرا سکتاہے اگر پیسہ ساتھ نہ ہو تو چھترول سے خاطر تواضع کی جاتی ہے نئی نئی ایجا شدہ گالیوں سے استقبال کیا جاتاہے اس پیسے کی چمک جب کسی آفیسر کے آنکھوں سے ٹکراتی ہے تو سفارش میں منتقل ہوکر مجرم کو آزاد کرا دیتی ہے وقت کی اہم ضرورت ہے کہ قانون کو کتابوں سے نکال کر عملی جامہ پہنایا جاے تاکہ مندرجہ بالا تحر یر کی تشنگی کو سکون و آتشتی ملے بڑے بڑے دہشت گرد جو کہ عرصہ سے سرکاری مہمان بن کر جیلوں میں نمبردار بن کر بیٹھے ہیں ہمارا قانو ن بے صبری سے منتظر ہے اوران مقتولین کی بے چین روحیں جو قتل ہوئے بے چینی سے عرصہ سے اپنے قاتلوں کے انجام کو دیکھنے کی منتظر ہیں