جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ سچ بولنا ہی اچھی بات ہے لیکن جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں وہ بالکل اس بات سے منکر ہو چکی ہے کہ سچ بولنا بھی کوئی کام ہے اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں اور دیکھیں ہمارے کاروبار معاملات حتیٰ کہ عبادات میں بھی ہم سچ بولنے سے قاصر ہے جو معاملہ ہم اللہ کے ساتھ کرتے ہیں اس کو بھی ہم خلوص نیت سے نہیں کرتے ہے بندوں کے ساتھ تو دور کی بات ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں جو نظام آج کل چل رہا ہے وہ میرے خیال سے ظالمانہ اور جابرانہ ہے کیونکہ اگر کوئی ظالم ظلم کرتا ہے تو کوئی بات نہیں اگر کوئی قاتل قتل کرتا ہے تو کوئی بات نہیں مگر کوئی اس قابل کے خلاف سچ بولنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر اس کی سزا موت کیونکہ آج کل کے قانون میں سچ صرف لکھنے تک محدود ہے میرے خیال سے ان میں سب سے بڑا جرم ہمارے سیاستدانوں کا ہیں 1985 میں جن سیاستدانوں کے پاس کچھ نہیں تھا آج ان کے پاس دولت کے ڈھیر لگی ہوئی ہے اس جمہوری سفر میں معاشرہ بہتر کی بجائے ابتری کی طرف گیا اور معاشرہ جرائم کی ایک عام جگہ بن گیا ہے آج نہ رشتوں کا احترام ہے نہ اخلاقیات کا خیال لوگ حرام رزق کی طرف اس طرح دوڑے جا رہے ہیں جیسا کہ یہ مال غنیمت ہو لوگ یوم حساب کو بھول چکے ہیں ہمارے سیاستدانوں ہی نے مذہبی اور دیگر طبقات کا رخ دولت کی طرف موڑا ہے کس کس کا تذکرہ کیا جائے صبح و شام ان کی جھوٹ سن سن کر معاشرہ تھک گیا ہے جھوٹ کسی ایک طرف سے نہیں بلکہ سب اطراف سے بولا جا رہا ہے آج کل ملک میں ہر جگہ اسلحہ کی زور سے ڈکیتیاں ہو رہی ہے قبضے ہو رہے ہیں مگر سچ بولنے کو کوئی تیار ہی نہیں ہے