پاکستان قومی ریاست یا اسلامی ریاست اور مندر کی تعمیر: میں پہلے دن سے یہی بات کہہ رہا ہوں ـ ہماری بیورکریسی اور ایلیٹ کلاس طبقہ ملک کو قومی ریاست کے طور پر تسلیم کرتا ہے ـ جب کہ ہمارے عام شہری اور مذہبی افراد اسے اسلامی ریاست کے طور پر دیکھتے ہیں ـ “قومی ریاست” اور “اسلامی ریاست” کے فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ کنفیوژن ہوتی ہے اور بہت سے معاملات میں عوام اور حکومت الگ الگ اسٹیج پر کھڑے ہوتے ہیں ـ
ریاست اور حکومت دو الگ الگ چیزیں ہے ـ دورِ جدید کی تمام ریاستیں قومی ریاستیں ہیں البتہ ان کی حکومتیں اسلامی یا غیر اسلامی ہو سکتی ہیں
اقوامِ متحدہ میں پاکستان بطور قومی ریاست مینشن ہے اور قائد اعظم نے بھی یہی اعلان کیا تھا ـ پاسپورٹ میں بھی ہماری نیشنیلیٹی “مسلم” نہیں بلکہ “پاکستانی” ہوتی ہے ـ مولانا موددی کی تحریک کی وجہ سے جمہوریہ پاکستان کے ساتھ “اسلامی” کا سابقہ لگایا گیا اور آئین میں صدر وزیر اعظم کا مسلمان ہونا لازمی قرار دیا گیا جس پر اس زمانے میں تنقید بھی کی گئی مولانا مومودی نے اس وقت کہا تھا کہ آج ریاست نے کلمہ پڑھ لیا ہے ـ بعد میں جرنل ضیا کی کچھ اصلاحات کی وجہ اسلامی ریاست کا تصور عام ہو گیا ـ در پردہ عوام کی ہمدردی اور سیاسی مقاصد کا حصول تھا ـ اس لیے یہ بات سمجھ لیں کہ ہماری انتظامیہ ملک کو اسلامی نہیں بلکہ قومی ریاست کے طور پر دیکھتی ہے ـ
جس میں مسلم غیر مسلم برابر کے شہری ہوتے ہیں اور یکساں حقوق رکھتے ہیں ـ اس لیے پارلیمنٹ کے افراد مندر کے حق ہی میں بولیں گے ـ چاہیے وہ کسی بھی پارٹی کے ہوں ـ جب تک اقوام متحدہ کے بندھن سے آزاد نہیں ہوجاتے غیر مسلموں کو برابر کے شہری ہی تسلیم کرنا ہوگا اور برابر کے حقوق دینے ہوں گے کیونکہ پاکستان قائداعظم نے فتح نہیں کیا بلکہ حقِ خود ارادیت اور جمہوری حکمومت کے قیام کے اصول پر بطور قومی ریاست حاصل کیا ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کیے ہیں ـ
ابتدا میں اقبال نے اور بہت سے مذہبی علما نے اسی لیے قومیت/ وطنیت اور جمہوریت کی مخالفت کی تھی لیکن بعد میں سب نے اسے نظریہ ضرورت کے تحت قبول کر لیا کہ جب تک خلافت کا ادارہ دوبارہ قائم نہیں ہو جاتا اسی کو قبول کرنے میں بہتری ہے ـہمارے روایتی علما جو فتاویٰ اور فقہی آرا پیش کرتے ہیں وہ اس زمانے کی مدون کردہ ہیں جب ریاست میں مسلمان اور غیر مسلم کا تعلق فاتح اور مفتوح کا ہوتا تھا یا اہلِ صلح کا تھا ـ غیر مسلم ذمی تھے جزیہ دیتے تھے اور دوسرے درجے کے شہری ( کم تر) بن کے رہتے تھے حکومتی عہدوں پر بھی فائز نہیں ہوسکتے تھے ـ مسلمانوں نے انھیں تلوار کے زور پر زیر کیا ہوتا تھا ـ جب کہ موجودہ زمانے میں فاتح اور مفتوح کا تعلق ختم ہو گیا اب دنیا دار الاسلام اور دارالحرب نہیں بلکہ اب تمام ممالک قومی ریاستیں ہیں( سوائے چند ایک برطانیہ، سعودیہ وغیرہ کے) اور سب اقوامِ متحدہ کے ساتھ معاہدہ میں بندھے ہوئے ہیں ـ
جس کی رو سےریاست کے تمام لوگ بلا امتیاز رنگ و نسل اور مذہب ، ریاست کے برابر کے مالک ہیں ـ مسلم غیر مسلم برابر درجہ کے شہری تصور ہوتے ہیں ـ انھیں ووٹ کا برابر حق ہوتا ہے وہ حکومتی عہدوں اور پارلیمنٹ میں شریک ہوتے ہیں ـ عبادت گاہیں تعمیر کرنے کا حق ہوتا ہے ـ دوسرے شہریوں کی طرح برابر ٹیکس دیتے ہیں ـ انھیں بزورِ شمشیر فتح نہیں کیا ہوتا اس لیے ان کے ساتھ مفتوحین جیسا سلوک نہیں ہوتا نہ وہ ذمی کہلاتے ہیں نہ ان سے جزیہ وصول کیا جاتا ہے ـ
اس لیے موجود دنیا میں قدیم فتاویٰ اور فقہی آرا جو فاتح اور مفتوح کے تصور کی بنیاد پر قائم کی گئی تھیں کسی بھی عدالت میں قابلِ اعتنا نہیں ـ
غیر مسلم ممالک میں مسلمان قومی ریاست کے شہری ہونے کے ناتے ہی مساجد بناتے ہیں اور اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں ـ مندر کی تعمیر پر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ یہ اسلام آباد کے ماسٹر پلان کا حصہ تھا یا نہیں، اس کا جواب سی ڈی اے دے سکتی ہے اور دوسرا اعتراض یہ کر سکتے ہیں کہ کیا بجٹ میں مندر اور گوردواروں کے ساتھ ساتھ مساجد کا حصہ بھی مختص ہے؟موجودہ حکومت کی مساجد کے لیے کیا کارگردکی ہے؟؟ مساجد کی بھی اس طرح سرپرستی کیوں نہیں کی جا رہی…. وغیرہ اس کے علاوہ باقی سب اعتراض بطور قومی ریاست کسی بھی عدالت میں قابلِ اعتنا نہیں ہوسکتے ـ
سیاسی علما بھی جو اس حقیقت سے واقف ہیں وہ روایتی علما والے فتویٰ کبھی بھی زبان پر نہیں لائیں گے بلکہ سطحی اعتراض کرتے نظر آئیں گے یا معاملہ عدالت کے سپرد کرنے کو کہیں گے اور خود تبصرہ کرنے سے گریز کریں گے ـ اس سلسلے میں وزیر مذہبی امور، جماعت اسلامی ،جمعیۃ علما یا کسی بھی سیاسی عالم کا تبصرہ سن سکتے ہیں ـ
نیوز فلیکس 02 مارچ 2021