زمانہ قدیم میں بحیرہ روم کے آس پاس تین بڑی تہذیبوں نے نشوونما پائی: ایک مصری تہذیب، دوسری ہتی تہذیب، اور تیسری وادی دجلہ و فرات ( عراق )کی تہذیب، جو سب سے زیادہ پرانی تھی اس تہذیب کا آخری بڑا مرکز بابل تھا بابل کے بہادر سپاہی بار ہا حملہ آوروں کے سیلاب کا رخ پلٹ چکے تھے لیکن اکتوبر539 ق-م میں ان کی مرکزی حکومت کو جنگ کے بغیر سائرس کے سامنے ہتھیار ڈال دینے پڑے.
سائرس نے میڈیا اور پارس کو متحد کرکے جس سلطنت کی بنیاد ڈالی .وہ اس تیزی سے ابھری کے بابل کے بادشاہ نہ بنیں دس کو اس کا صحیح اندازہ ہی نہ ہو سکا. ابتدا میں وہ خوش تھا کہ میڈیا کی بادشاہی ختم ہوگئی جو مدت سے بابل کی دشمن چلی آتی تھی اس کا خیال تھا کہ پارس کی نئی قوت کو زک دنیا مشکل نہ ہوگا اس نے مصر لیڈیا سپارٹا وغیرہ کو ملاکر مقابلے کے لئے ایک متحدہ محاذ بھی قائم کر لیا تھا لیکن متحدہ ایرانی قبائل نے بابل کے تمام خلیفوں کو آناًفاناً تتر بتر کر ڈالا۔ پھر بحیرہ روم کے کنارے کی تمام یونانی نوآبادیاں لے لیں نابونی دس نے بھی بابل کے شمال میں شکست فاش کھائیں. اس کے بعد بابل والوں کے لیے مقابلے کا سوال ہی باقی نہ رہا چنانچہ انہوں نے دب کر سیروس کی اطاعت قبول کر لی بے شک پتلو آتش زنی کے وہ واقعات پیش نہ آئے جو ڈیڑھ سو سال قبل نینوا کے بادشاہ سنا شرب کے ہاتھوں پیش آ چکے تھے ۔ شہر تباہی سے محفوظ رہا مگر اس کی عظمت ماضی کا افسانہ بن کر رہ گئی.
اہل بابل بڑے ہوشیار اور ذہین لوگ تھے ان کے فنون لطیفہ کا اثر تک پہنچا علم ہندسہ میں ان کے کمالات اعلی درجہ کی قلعہ بندیوں اور آبپاشی کے وسیع سلسلوں میں نمایاں تھے فن تعمیر میں ان کی برتری کی شہادت عالیشان مندروں سے ملتی ہے انہیں کاروبار کا بھی بڑا ملکہ تھا۔ ان کے بعض تجارت پیشہ خاندان قصبوں اور شہروں میں اقتدار کے مالک بن گئے تھے بابل میں علم کی بہت قدر ہوتی تھی وہاں حضرت مسیح علیہ السلام سے ایک ہزار سال پیشتر کتب خانوں کی بنیاد رکھ دی گئی. بابل کے علاوہ سائرس نے شام فلسطین مشرقی ایران قبرص اور ایشیائے کوچک کے آس پاس کے تمام یونانی جزیرے مسخر کرلئے چنانچہ519 ق-م تک دنیا کے تمام مذہب ممالک اس کےبا جگزار بن چکے تھے. اولوں کی طرح تیر برسانے اور آندھی کے مانند تیز چلنے والے سواروں نے ایک روشن دماغ سپہ سالار کی ماتحتی میں اس سلطنت کی طرح ڈالی جو اس دنیا میں غالباً پہلی شہنشاہی تھی۔
یاد رکھنا چاہیے کہ اہل ایران لڑایوں میں بھی بڑے ضبط سے کام لیتے تھے اور مفتوحین کے ساتھ ان کا برتاؤ بھی اچھا تھا وہ دوسرے مذاہب سے رواداری برتی کے اور مفتوحہ ملکوں کے باشندوں کو اونچے عہدے دیتے تھے ان کا نصب العین یہ تھا کہ دنیا کو ایک مرکز پر جمع کر دیا جائے اور سب کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔ بابل کی اس فتح کے بعد بنی اسرائیل کو جو قید کرکے فلسطین سے لائے گئے تھے دوبارہ اپنے وطن جانے کی اجازت مل گئی.