خوشیوں کا راز

In ادب
February 05, 2021

السلام علیکم!
آج کے اس دورِ حاضر میں ہر بندہ پریشان و رسوا ہے اور زنگی میں سوائے شکووں کے اس کے پاس باقی کچھ نہیں ہے۔ یہ واحد بات ہے جو مجھے روز کچھ کہنے پر اکساتی ہے اور لوگوں کو زندگی میں خوش رہنے کا سبق لکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ آخر کار “خوشی کیا ہے” ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ ہمیں اس بات پر خوش ہونا ہے؟
میرے نزید زندگی خوشیوں اور غموں کا میلہ ہے جس میں ہم ایک دائرے کے اندر موجود نقطے سے غموں کو جوڑ دیتے ہیں۔ وہ نقظہ جو ایک بہت بڑے دائرے میں ہمیں نظر آتا ہے مگر اس دائرے کے اندر موجود ساری سفیدی یعنی خوشیاں بہت کم نظر آتیں ہیں اور پھر ہم اپنے حالات کا رونا روتے ہیں
اس قدر آج کے اس دورِ حاضر میں دولت کا مقابلہ ہے کہ ہم اپنے وہ دن بھول جاتے ہیں جب بہت ہی کٹھن دن ہم پہ گزرے تھے۔ دوسری کو دیکھا دیکھی ہم اندھے ہو کر دولت سمیٹنے کے لیے دن رات ایک کررہے ہیں مگر خوشیاں ہماری چھن گئی ہیں۔ کبھی نہیں سوچتے کہ آخر کار ہماری خوشیوں کا دشمن کون ہے؟ وہ کون ہے جو ہمارا سکون برباد کررہا ہے؟ کس نے ہمیں پریشانی میں مبتلا کیا ہوا ہے؟ یہاں تک کہ ہم اتنے پریشان ہو جاتے ہیں کہ خود کشی کرنے پر اتر آتے ہیں۔
آج ان سب باتوں کا جواب میں آپ کو دوں گا اور اپنی ہر وقت خوشیوں بھری زندگی کا راز بتاؤں گا۔ ہم روز اپنے ارگرد بہت لوگ دیکھتے ہیں جو کچھ بہت ہوشیار اور کچھ سادہ زندگی بسر کرنے والے ہوتے ہیں مگر ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا ہے ایک امیر گھرانہ بھی کھانا کھاتا ہے اور ایک غریب خاندان بھی کھانا کھاتا ہے۔ امیر گھرانہ بھی بھوک ختم کرتا ہے اور غریب خاندان بھی بھوک مٹاتا ہے اور اسی طرح امیر پانی پی کر پیاس بجھاتا ہے اور غریب بھی پانی پی کر پیاس بجھاتا ہے امیر بیڈ اور اے سی روم میں سو کر نید پوری کرتا ہے اور غریب زمین یا چارپائی پر لیٹ کر نیند پوری کرتا ہے
امیر نے بھی نیند پوری کی اور غریب نے بھی نیند پوری کی مگر فرق اتنا ہے کہ ہم سوچ کو ہمیشہ منفی رکھتے ہوئے اپنی خوشیاں گوا چکے ہیں۔ آج سے ہم عزم کر لیں کہ جس حال میں ہیں اسی حال میں خوش رہنا سیکھیں۔ اللہ کا شکر ادا کریں تاکہ ہم پر رحم کیا جا سکے کچھ الفاظ ہیں میرے جو اشعار کی شکل میں ہیں شائد کہ تیرے دل میں اتر جائیں

اپنے شکووں سے بھی شکوہ ہے شکوہ کیا کریں ہم
ایسے شکووں سے تو اچھا ہے شکووں سے لڑیں ہم