مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ۔۔۔۔ (حصہ اول)
تحریر:فرزانہ خورشید
پیدائش نام ،نسب و لقب۔۔۔۔
آپؒ کا نام محمد اور لقب جلال الدین تھا آپ نے مولانا روم کے نام سے شہرت پائی آپ۲۰۴ ہجری میں بلخ میں پیدا ہوئے آپ کے والد بزرگوار کا نام بھی محمد اور لقب بہاوالدین تھا جو ایک نابغہ روزگار عالم دین تھے آپ کے حلقہ ارادت میں امام فخر الدین رازی اور محمد خوارزم شاہؒ بھی شامل تھے انکے علم کی وجہ سے بلخ میں انہیں سلطان العلماء کہا جاتا تھا،انہوں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں سے ایک کتاب معارف جو اپنی مثال آپ ہے آج بھی موجود ہے۔ مولانا روم کا سلسلہ لفظ چند واسطوں کے ذریعے حضرت سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ سے جا ملتا ہے۔
ہجرت۔۔۔۔۔
آٹھ سو سال پہلے جس دور میں تاتاری خراسان وایران کی طرف بڑھ رہے تھے فتنوں کے خوف کی وجہ لوگ اپنے وطن چھوڑ کر محفوظ علاقوں کی طرف بھاگ رہے تھے تو آپؒ کے والد بہاؤالدین نے بھی اپنے خاندان کے ساتھ۴۱۰ ہجری میں بلخ سے ہجرت فرمائی۔
سفرِ حج۔۔۔۔۔
یہاں سے نکل کرآپ نے سفرِحج کا ارادہ کیا اوربلخ سے بغداد پہنچے پھر اپنے خاندان والوں کے ساتھ حج مبارک ادا کیا حج کے بعد آپ دمشق اور دوسرے شہروں سے ہوتے ہوئے سلاطیہ پہنچے ان سب شہروں میں انہوں نے کہیں تو مہینوں اور کہیں برسوں قیام کیا آخر میں یہ خاندان۴۲۶میں ترکی کے شہر قونیہ پہنچا۔یہ سفر تقریبا سولہ سال میں مکمل ہوا۔
قونیہ میں والدؒ کا شاندار استقبال۔۔۔
اس وقت قونیہ میں سلطان علاالدّین کیقباد کی حکومت تھی ۔جیسے ہی سلطان کو سلطان العلماء کے آنے کی خبر ہوئی اس نے آپؒ کا شاندار استقبال کیا اور آپؒ کی عقیدت میں شہر سے باہر نکل آیا۔باعثِ احتراماً اپنے گھوڑے سے اتر پڑااور آپ کے لیے قونیہ میں ایک بڑا مدرسہ بنوایا جس کا نام خداوندگار تھا۔ جہاں آپؒ کے والد تدریس و تعلیم دیا کرتے تھے۔
تعلیم و تربیت۔۔۔۔۔
اپنے والد محترم کے ساتھ جب آپ سفر کے لیے روانہ ہوئے اس وقت آپ چھ سال کے تھے جب قونیہ پہنچے تو اس وقت تک آپؒ کی عمر مبارک۲۲ سال تھی۔ آپ نے دورانِ سفر اپنے والد جو کہ خود علم کا سمندر تھے کے زیر نگرانی مختلف علوم پڑھے،انہوں نے تفسیر، حدیث،تاریخ اور دوسرے علموں میں بڑی مہارت حاصل کرلی۔ سفر جو کہتے ہیں سب سے بڑا استاد ہے آپ کو اس طویل سفر کا یہ فائدہ ہوا کہ آپ نے مختلف ملک اور راستوں اور وہاں کے کتب خانوں سے بھرپور استفادہ حاصل کیا،آپکی علمی و فکری اور دینی نظریات میں مزید وسعت آئی۔
والد کے انتقال کے بعد آپ کا سلسلہ تعلیم۔۔۔
قونیہ میں آنے کے دو سال بعد اپنے والد محترم جو کہ شفیق اور عظیم استاد بھی تھے کی جدائی کے غم سے آپ دو چار ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد جلال الدین رومی کے بچپن کے استاد سید برہان الدین محقق ترمذی جو کے والد کے مرید تھے اور ان کے حکم پر انہیں بچپن میں پڑھاتے تھے آپ کے بیٹے کو پڑھانے قونیہ آۓ۔ ایک بار پھر انہیں پڑھانے لگے مولانا روم ان کے مرید بن گئے یہ سلسلہ نو برس جاری رہا پھر ان کے استاد بھی۶۳۷ ہجری میں انتقال کر گئے اس دوران آپ مسلسل لکھتے اور پڑھتے اور پڑھاتے رہے آپ کے ذمہ فتوی لکھنے کی ذمہ داری تھی جس کے لیے وسیع علم اور انسانوں کو سمجھنے کی صلاحیت کا ہونا ضروری ہے جس کے آپ ماہر تھے۔ جاری ہے-