حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے۔آپ حضور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد اور چچازاد بھائی ہیں۔
نام و کنیت ۔
نام . علی
کنیت . ابوالحسن اور ابوتراب
لقب . حیدر
سلسلہ نسب اور والدین
آپ کا سلسلہ نسب والد کی طرف سے یہ ہے۔
علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مروہ بن کعب بن لوی
آپ کی والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن مناف ہے۔فاطمہ بنت اسد پہلی ہاشمی خاتون ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا اور ہجرت فرمائی۔اس مناسبت سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نجیب الطرفین ہاشمی اور حضور سرکار دو عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے حقیقی چچا زاد بھائی تھے۔
جناب ابو طالب۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے والد جناب ابو طالب مکہ مکرمہ کے نہایت با اثر بزرگ تھے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ اسلام ان سے بڑی محبت فرماتے تھے۔ جناب ابو طالب نے ہر موقع پر اور ہر مشکل وقت میں حضور نبی کریم کاساتھ دیا۔ایک روایت میں آتا ہے کہ حضور علیہ الصلوة والسلام جناب ابو طالب کے انتقال پر بہت رنجیدہ اور غمزدہ تھے۔آنکھوں سے آنسو جاری تھے جنازہ کے ساتھ گۓ اور فرماتے تھے چچا جان آپ نے صلہ رحمی کا حق ادا کر دیا میرے حق میں کوئی کو تاہی نہیں کی اللہ تعالی آپ کو جزاۓ خیر دے۔
حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ تعالی عنہ
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ تعالی عنہ بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت و شفقت سے پیش آتی تھیں۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ماں کی طرح پرورش کی ان کے انتقال کا وقت قریب آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب ان کا انتقال ہو جا ۓ تو مجھے خبر کر دینا ۔ایسا ہی کیا گیا جب فاطمہ بنت اسد رضی اللہ تعالی عنہ کی میت کو دیکھا تو سرہانے کھڑے ہو کر رقت آمیز لہجے میں فرما یا
اے میری ماں، میری والدہ کے بعد آپ میری ماں تھیں۔اللہ آپ پر رحم فرماۓ۔جب ان کی قبر کھودی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں داخل ہو کر لحد میں لیٹے کچھ قرآن پڑھا اور دعا مانگی اے اللہ تو میری ماں فاطمہ بنت اسد رضی اللہ تعالی عنہ کی مغفرت فرما اور ان اور ان کی قبر کو وسیع کر دے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا قبول اسلام
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دس سال پہلے پیدا ہوۓ۔جناب ابوطالب کی اولاد بہت زیادہ تھی اور ان کی آمدنی محدود تھی اور اخراجات زیادہ تھے۔ اس لۓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی کو اپنی کفالت میں لے لیا۔اور ان کی پرورش کرنے لگے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت اسلام دی توانہوں نے کہا کہ میں جا کر اپنے والد محترم سے مشورہ کرتا ہوں۔ابھی چند قدم ہی گۓ تھے کہ دل میں خیال گزرا کہ مجھے میرے والد نے نصیحت کی تھی کہ تمہیں جو بات بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہیں اسے ضرور قبول کرنا چنانچہ اس نصیحت پر عمل کرتے ہوۓ واپس ہوۓ اور کلمہ اسلام پڑھ کر مسلمان ہو گۓ۔اس وقت آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر دس سال تھی۔اس طرح بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام قبول کیا۔
جانثاری کا جذبہ
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کرنے کی غرض سے مکہ مکرمہ کے باہر وادی میں جا کر عبادت فرمایا کرتے تھے ۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی ساتھ ہوا کرتے تھے۔جناب ابو طالب حضرت علی رضی اللہ تعالی سے مخاطب ہوۓ اور ان کے دین کے بارے میں پو چھا تو حضرت علی المرتضی دضی اللہ تعالی عنہ نے کہا ابا جان اسلام ایک سچا دین ہے میں اللہ تعالی اور اس کے پیغمبر علیہ الصلوة اسلام پرایمان لے آیا ہوں۔جناب ابو طالب نے نے کہا اے میرے بیٹے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہ اور ان کی خدمت کر وہ بھلائی اور نیکی ہی کی بات کہیں گے۔
دعوت کا انتظام
حضور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی کا نزول ہوا۔تواس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سال تک خفیہ تبلیغ فرمائی۔چو تھے برس اعلانیہ تبلیغ اور سب سے پہلےاپنے قریبی رشتہ داروں کو دعوت اسلام دینے کا حکم ہوا۔آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے کھانا تیار کروایا۔ جب سب لوگ کھا نے سے فارغ ہو گۓ تو ان کو اسلام کی دعوت دی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اے بنی عبدالمطلب مجھے اس پروردگار کی قسم جس کے سوا کوئی پروردگار نہیں میں تماری طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔اللہ کی قسم سب لوگوں نے مرنا ہے اور مرنے کے بعد زندہ ہونا ہے۔نیکی کا بدلہ نیکی اور برائی کا بدلہ آگ اور عذاب ہو گا۔تم میں سے جو شخص میری مدد اور نصرت کے لۓ کھڑا ہو گا میرا بھائی اور تمہارے درمیان وہ میرا وصی اور خلیفہ ہو گا۔
سب خاموش رہے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اُٹھے اور فرمایا بے شک میں عمر میں سب سے چھوٹا ہوں غصہ میں تیز اور قبیلہ و نسب کے اعتبار سے بڑا ہوں مجھ سے جو کچھ ہو گا دل و جان سے کروں گا۔تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک ان کی گردن میں ڈالے اور دعا وتعریف کرتے ہوۓ فرمایا
تو میرا بھائی اور وارث ہے۔
غزوات میں شرکت
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ جرأت دلیری اور بہادری کی اعلی مثال تھے۔آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ بشانہ غزوات میں شرکت فرمائی اور جرأت و بہادری کے بے شمار کارنامے سر انجام دیۓ۔ ۔آپ نے جن غزوات میں بہادری کے جوہر دکھاۓان کے نام درج ذیل ہیں۔
غزوہ سفوان۔
غزوہ بدر۔
غزوہ احد۔
غزوہ حمرةالاسد۔
غزوہ بنی نضیر۔
غزوہ بدرالموعد۔
غزوہ بنی مصطلق۔
غزوہ خندق۔
غزوہ بنی قریظہ۔
خلافت کی ذمہ داریاں
سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے خلا فت کی ذمہ داریوں کو احسن طریقہ سے سر انجام دیا.اور تمام امور کی نگرانی میں خصوصی دلچسپی لی۔اگرچہ آپ کا دور خلافت شورشوں اور فتنوں کے حوالے سے نہایت پُرفطن رہا .آپ کی زیادہ تر توجہ اسی جانب مبذول رہی .مگر اس کے باوجود آپ خلافت کے دیگر امور سے کبھی غافل نہں رہے. اور مملکت کے کاموں میں کبھی غفلت نہ برتی۔
شہادت
ہجری میں ماہ رمضان کی ایک صبح حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر نماز فجر کے دوران ایک خارجی ابن ملجم نے تلوار سے وار کیا آپ کو گہرے زخم آۓ۔اگلے دن آپ کی شہادت ہو گئی۔