دل میں اترنے والی اسلامی حکایات
1۔یہ سب کے سب یعنی کالا جادو کرنے والے، ستاروں کا علم رکھنے والے، نام سے نام ملکر حالات بتانے والے، رمل یعنی لکیریں کھینچ کر زائچہ بنانے والے، بے نمازی عملیات کرنے والے، اس بات کے دعویدار ہیں کہ وہ ہونی کوٹال سکتے ہیں، جو کل ہونے والا ہے اُس کا بتا سکتے ہیں اور کسی کا گھر تباہ کر سکتے ہیں لیکن اللہ کریم کی بندگی ان سب کاموں سے ہر مسلمان کو بے نیاز کر دیتی ہے اور اُسے یہ خواہش ہی نہیں رہتی کہ کون کون اُس کے خلاف ہے بلکہ یہ یقین ہوتا ہے کہ اللہ کریم اُس کے ساتھ ہے۔
2۔ ہر گناہ پر پکڑ نہیں ہوتی مگر کوئی گناہ ایسا ہو جاتا ہے کہ کسی کے دل سے آہ نکل جاتی ہے، جس سے گناہگار کی ایسی پکڑ ہوتی ہے کہ بے ایمان کرکے ماردیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہر نیکی پر ثواب ہے مگر ایسی کوئی نیکی ہو جاتی ہے کہ کسی کے دل سے واہ نکل جاتی ہے، جس سے نیکی کرنے والے کے سارے گناہ بخش دئے جاتے ہیں اور نفس مطمئنہ کا مالک بنا دیا جاتا ہے۔ اللہ کرے ہمارے کسی عمل سے کسی کے دل سے آہ نہ نکلے بلکہ ایسے نیک اعمال ہوں کہ ہر ایک کے دل سے واہ نکلے۔
3۔ سوال پوچھا گیا کہ اللہ تعالی لاکھوں ماؤں سے زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے تو کیا وہ اپنے بندوں کو جہنم کا عذاب دے گا تو جواب دیا ایسا ہر گز نہیں ہو گا مگر بندہ اللہ کا ہو۔
4۔ زندگی میں ایمان والے کے لئے دنیاوی ہار جیت یا دُکھ سُکھ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی کیونکہ مومن کو ہار سے صبر اور جیت سے شُکر کا درجہ ملتا ہے۔ اللہ کریم دُکھ سُکھ سے ہر مسلمان کی جلالی و جمالی تربیت کرتا رہتا ہے۔
5۔ اکثر بندوں کا یہ رونا ہے کہ مجھے کوئی سمجھ نہیں پایا، میرا کوئی حق ادا نہیں کرتا، مجھے کوئی اچھا نہیں سمجھتا۔ مجھے مجھے۔۔۔ اس پر سوال کیا گیا کہ تو ہر ایک کا حق ادا کرتا ہے یا نہیں تو سمجھ آیا نہیں نہیں۔۔
6۔ 24گھنٹوں میں ہر اچھا عمل ذکر کہلاتا ہے اور ہر بُرا عمل الا بلا بن جاتا ہے۔
7۔ اللہ تعالی کی عبادت کرنے سے مقصود اللہ کریم کو راضی کرنا ہے، اسلئے اللہ کریم ہی مطلوب و مقصود ہے اور کوئی طاقت و تصرفات و کرامات نہیں چاہئیں۔
8۔ دنیا دار رزق کی تلاش میں سستی اور غفلت کو جُرم سمجھتے ہیں لیکن اللہ والے اللہ کریم کی محبت میں غفلت کو جُرم سمجھتے ہیں اسلئے رزاق (اللہ) کی قدر رزق سے بڑھ کر کرتے ہیں۔
9۔ پاگل جسے ہوش نہ ہو اور گل پہلے اور پا بعد میں آئے تو مطلب ہے کہ کوئی گل پا کر اللہ کا ولی بن گیا ہے۔
10۔ غفلت کا مطلب ہے کہ اللہ سے رُخ موڑنا، ہر ایک کا دل توڑنا، دین کا مذاق اُڑانا، دنیا کو سینے سے لگانا، حقوق اللہ کو ضائع کرنا، بندوں کا حق کھایا کرنا، خود آگاہی سے فرار، خود فریبی کا شکار، خواہش کو پانے میں مگن ہر گناہ کام کرنے کی لگن، بندے پر قبضہ ہے شیطان کا، ذکر بھی گوارہ نہیں رحمن کا۔