حضرت آدم علیہ السلام جب زمین پر تشریف لے آئے تو بارگاہِ الہٰی میں سوال کیا کہ اے پاک پروردگار یہاں نہ تو میں ملائکہ کی تسبیح و تکبیر سن سکتا ہوں اور نہ ہی کوئی ایسی جگہ دیکھتا ہوں جہاں میں تیری عبادت کروں۔ جس طرح آسمان پر بیت المعمور کے گرد ملائکہ طواف کرتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب آیا کہ ہم تم کو زمین بتاتے ہیں تو وہاں تم کعبہ بنا کر طواف بھی کر لو اور اس کی طرف نماز بھی ادا کرو۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام حضرت آدم کے ساتھ چل پڑے اور اُس جگہ لے گئے جہاں زمین بنی تھی یعنی جہاں سے جھاگ نکلا تھا اور پھر وہاں سے جھاگ نکل کر پوری زمین بنی تھی۔
حضرت جبرائیل نے اپنا پر مار کر سات زمینوں کی بنیاد ڈال دی تھی جس کو ملائکہ نے پانچ پہاڑوں کے پتھروں سے بھرا وہ پتھر کوہِ لبنان،کوہِ طور،کوہِ جودی،حرا اور طور زیتا تھے۔ پھر چاروں طرف سے دیواریں بلندکر دیں۔ پھر حضرت آدم علیہ السلام اسی جگہ نماز بھی ادا کرتے رہے اور طواف بھی کرتے رہے اور کعبہ طوفان نوح کے وقت تک اسی حالت میں کھڑا رہا۔ طوفان کے وقت کعبہ کی عمارت کو آسمان پراٹھا لیا گیا تھا اور اس کی جگہ کو اونچے ٹیلے کی طرح بنا دیا تھا۔ اس کے بعد لوگ برکت سمجھ کر اس جگہ آتے تھے اور دعائیں مانگتے تھے۔ پھر حضرت ابراہیم کے زمانے تک کعبہ ایسے ہی رہا۔ اورپھرجب حضرت اسمٰعیل اور حضرت ہاجرہ اس میدان میں آکر ٹھہرے تو ان کی وجہ سے کچھ آبادی ہو گئی اور پھر جب حضرت ہاجرہ کا انتقال ہوا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا کے حضرت اسمٰعیل کو ساتھ لے کر یہاں عمارت کعبہ بنائیں۔
اور خانہ کعبہ کی نشانی کے لیے ایک بادل کا ٹکڑا بھیجا گیا تاکہ اس کے سائے سے کعبہ کی حد مقرر ہوجائے۔ حضرت ابراہیم نے اس سائے کی مقدار کا خط کھینچا یہاں تک کے بنیاد حضرت آدم نمودار ہو گئی اور اس بنیار پر عمارت تعمیر کی۔ اس وقت خانہ کعبہ کی شکل ایک مستطیل کی طرح تھی۔اس کے دو دروارے تھے ایک داخل ہونے کا اور ایک باہر جانے کا۔ کعبہ بنانے والے اللہ کے خلیل تھے اور گار اور پتھر دینے والے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام تھے۔ کعبہ کی عمارت میں تین یا بعض جگہ پانچ قسم کے پتھر لگائے گئے تھے۔اس کے بعدمختلف ادوارمیں کعبہ کی تعمیر میں تبدیلیاں بھی ہوئیں جیساکہ اونچائی کو دوگنا کیا گیا،دروازہ دو کی بجائے ایک اور اس کا رقبہ بھی کم کیا گیا تھا لیکن بعد میں پھر کعبہ کو اس کے اصلی رقبہ میں ہی تعمیر کیا گیا تھا۔
خانہ کعبہ کو تعمیر ہوئے تقریباً چار ہزار سال ہو چکے ہیں۔اور اب یہ وہ رحعمت والی جگہ ہے جہاں قحط نہیں پڑتا اور ایک روایت کے مطابق فرشتے بھی خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں جو فرشتہ ایک دفعہ آتا ہے وہ دوبارہ نہیں آتا۔ دنیا کی تمام نعمتیں اس تک آتی ہیں۔ اورہرسال حج وعمرہ کے لیے زائرین پوری دنیا سے آتے ہیں۔ یہ دنیا کے بالکل مرکز میں واقع ہے اور خانہ کعبہ کو جغرافیائی لحاظ سے بھی بے حد اہمیت حاصل ہے۔