عورت اللہ نے مٹی سے نہیں، بلکہ مرد کے جسم سے بنایا تاکہ اُس کی صرف خدمت نہیں، بلکہ اُس کی رفیق حیات بن کر ساتھ زندگی گزارے۔ اللہ نے عورت کو اس لئے پیدا کی ہے تاکہ مرد کو اس سےسکون و راحت ملے۔ زندگی کا یہی وہ لائق احساس سرمایہ ہے جو مرد کو عورت کی آغوش میں مل سکتا ہے۔ بیوی کی آغوش وہ شبستان ہے جہاں مرد معاشی پریشانی میں سرگرداں، جان توڑ محنت کے بعد سکھ کی گھڑیاں گزارتا ہے اور پھر سے تازہ دم ہو جاتا ہے۔ عورت راحت و سکون کا گہوارہ ہے جہاں اس کے مرد یعنی شوہر کو سکون نصیب ہو تا ہے، اس کی ہمدردی اور پاکیزہ محبت سے شوہر کو قلبی سکون ملتی ہے۔
میاں بیوی شادی کے بعد دو الگ جان نہیں ہے، بلکہ یک جان ہونے چاہئیں، تاکہ درمیان میں کوئی تیسری جان انے کی کوشش نہ کرے۔ ایک دوسرے کا عزت واحترام، ضروریات زندگی، جائز خواہشات، اخراجات اور ایک دوسرے کو وقت دینے کی ضرورت ہے۔
میاں بیوی ہلکی پھلکی غلط فہمی پر صبروتحمل اور برداشت کا دامن تھام کر رکھیں۔ جب ایک لڑ رہا ہے تو دوسرا خاموشی اختیار کرے، تاکہ غصے کے وقت جواب دینے سے لڑائی مزید نہ بڑھے۔ دماغ کو ٹھنڈا ہونے کے بعد پیار سے اپنی بات ضرور بتائیں۔
میاں بیوی کی بحث وتکرار ہر گھر میں ازدواجی زندگی کا حسن ہے، بلکہ ایسے ہی چھوٹی موٹی بحث وتکرار سے بھی گریز کریں۔ میاں بیوی کو یہ خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اگر لڑائی اس بات سے شروع ہوئی ہے کہ سالن میں نمک زیادہ یا کم ہے تو پھر بحث بھی سالن ہی رہنا چاہیے۔ یعنی لڑائی سالن سے شروع اور سالن پر ہی ختم ہوجانا چائیے اگے بڑھنے کی کوشش نہ کرے تو پھر معاملہ درست رہیگا۔
بلاوجہ بیوی کو شوہر سے ناراض ہونا جائز نہیں ہے، اگر کسی وجہ سے ناراض بھی ہوجائے تو اس کے بعد شوہر کو چائیے کہ اس کو منانے کی کوشش کرے۔ بیوی پر فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر سے راضی ہو کر اس کے پاس آجائے، اور شوہر بھی بیوی کے حقوق کی خاص خیال رکھے، قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں میاں بیوی کی حقوق بڑی اہمیت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں.
شوہر بیوی کو اللہ کی عطا کی ہوئی نعمت سمجھے، اس کی قدر احترام اور اس سے پیار و محبت کرے، اگر اس سے کوئی غلطی ہوجائے تو صبروتحمل سے کام لے، اور دانش مندی سے اس کی اصلاح کی کوشش کرے، اپنی استطاعت کی مطابق اس کی ضروریات اچھی طرح پوری کرے، دکھ دینے کے بجائے اس کی راحت رسانی اور دل جوئی کی کوشش کرے۔
بیوی اگر کسی بات پر ناراض بھی ہو جائے تو خود ناراض ہونے کے بجائے اُسے منانے کی کوشش کرے اور یہ سوچھے کہ جب میں خود روٹھتا ہوں تو وہ بھی مجھے مَناتی ہے اور ناز نخرے اُٹھاتی ہے۔ آخر کار بیوی بھی انسان ہے ، اُسے بھی تو کسی بات پر غُصّہ آسکتا ہے، اور آتا بھی ہے۔ اگر اُسے پیار محبت سے مَنا لوں گے تو کونسی قیامت آجائے گی ۔بیوی کے روٹھ جانے پر اُسے ناراض چھوڑ دینا بے مروّتی کی بات ہے۔ اللہ تعالی نے مرد کو اگر عورت پر فضیلت دی ہے تو عورت کو بھی کئی اعتبار سے عظمتوں سے نوازہ کی ہیں۔
ذرا سی بات پر غصہ کرنا اور بیوی سے لڑائی جھگڑا کرنا جاہلی، بے عقلی اور بے وقوفی کی علامت ہے۔ غصہ آئے تو اسے پی جانا چاہئے۔ غصہ کا اظہار زبان سے یا ہاتھ سے نہ ہونا چاہئے، بلکہ جب غصہ آجائے تو یہ وَالکَاظمیْنَ الْغیْظَ وَالْعَافیْنَ عَنِ النَّاسِ کثرت سے پڑھیں، ان شاء اللہ غصہ ختم ہو جائے گا۔ حدیث پاک میں آیا ہے کہ کامل ایمان والا وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے۔
آپ درود پاک کثرت سے ورد کیا کرے اور بالا آیت بھی پڑھتے رہے ان شاء اللہ آپ کا غصہ آہستہ آہستہ کم ہو جائے گا۔ اور وَاَلقیْتُ عَلیکَ محبَّةً مِنِّیْ بھی کثرت سے پڑھا کرے انشاءاللہ آپ دونوں کے درمیان محبت پیدا ہو جائے گی۔ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا
مومنین میں سے کامل ایمان اس شخص کا ہے جو بہت زیادہ خوش اخلاق ہو، اور تم میں بہتر وہ شخص ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہوں۔