مُحبت مجھے اِن جوانوں سے ہے
نزہت قُریشی
نوجوان نسل کسی بھی قوم کا سرمایہ اور اُس کا مستقبل ہو تی ہے۔ کیونکہ اسی نسل نے آگے بڑھ کر مُلک و قوم کی باگ دوڑ سنبھالنی ہوتی ہے ۔ اگر یہ نوجوان نسل ذہنی اور جسمانی لحاظ سے کمزور ہو تو گویا مُلک و قوم کا مُستقبل تاریک ہوتا ہے اور اگر یہ نسل مضبوط ہو تو مُلک و قوم کا مُستقبل بھی مضبوط ہوتا ہے۔
ہمارے آباؤ اجداد نے محنت و مشقت سے اس وطن کو آزاد کرایا اور پھر اس کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ اپنے آباؤ ا جداد کی روایات کو برقرار رکھنا اور اس کو مزید ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہی ان نوجوانوں کا کام ہے اور یہ اُس صورت میں ممکن ہو سکتا ہے کہ جب یہ خُود اِن روایات کی پاسداری کریں اور ان پر سختی سے عمل پیرا ہوں ۔ جبکہ آج کا نوجوان اپنے باپ دادا کی مُخالفت پر تُلا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ روایات آہستہ آہستہ دم توڑتی جا رہی ہیں اور قریب المرگ ہو گئی ہیں۔
مُسلمان ہونے کی حیثیت سے ان نوجوانوں کا فرض اولین یہ ہے کہ اپنے مذہب کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔ اس پر سختی سے کار بند رہیں اور اس کو مزید آگے بڑھائیں لیکن اس کے برعکس ہماری نوجوان نسل یورپ کی اندھا دُھندپیروی میں مصروف ہے ۔ نتیجہً مذہب کو پس پشت ڈال کر مغربیت پرستی میں مگن ہیں۔ چاہے وہ زبان ہو یا لباس، بیٹھنے اُٹھنے کے آداب یا گفتگو کا طریقہ ہر ایک میں مغربیت جھلکتی ہے یہ لوگ ادب و احترام کو بُھول گئے ہیں بلکہ اس بے باکی پر فخر محسوس کرتے ہیں اور بدتمیزی اور بےحیائی پر اتراتے پھرتے ہیں۔
ترقی میں آگے بڑھنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم دوسروں کی اندھا دُھند تقلید کریں ۔ ہمیں دوسروں کی اچھی باتوں کو ضرور اپنانا چاہیے مگر سوچ سمجھ کر کہ کہیں ہم ان کو اپنا کر گمراہی کی طرف تو نہیں جا رہے ہیں دوسروں کی نقل میں اکثر نوجوان ڈرگ کے نشے کے عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ بے حیائی اور فحاشی کی طرف راغب ہو کر ملک و قوم کے لیے ذلت و رسوائی کا باعث بنتے ہیں۔ جس قوم نے بھی اپنے آباؤاجداد کا راستہ چھوڑا ۔ غیرت و حمیت کو ترک کیا وہ ترقی کی بجائے تنزل کا شکار ہوئی۔ ہم آج بھی اپنے ان مستقبل کے معماروں سے نا اُمید نہیں ہیں۔ یہ اپنے مستقبل کو روشن بنا سکتے ہیں اور اپنے مستقبل کی بلندیوں تک پہنچ سکتے ہیں ۔ کیونکہ یہ ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی جرات و ہمت رکھتے ہیں۔
علامہ اقبال کے ان اشعار کے معیار پر پُورا اُترتے ہیں۔
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ۔
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند۔
اُڑا کر نہ لائے جہاں بادِ کوہ۔
مُغل شہسواروں ! کی گرد سمند۔