اصلاح معاشرہ اور ہماری معاشرتی زمہ داریاں۔ ( حصہ اول )
افراد ایک دوسرے سے مل کر زندگی بسر کریں تو وہ معاشرہ کہلاتا ہے۔ابن خلدون نے انسان کو مدنی الطبع قرار دیا ہے۔جس کا معنی ہے کہ انسان فطری طور پہ اجتماعی و معاشرتی زندگی کا محتاج ہےلیکن اگر افراد اچھے ہوں تو معاشرہ بھی اچھا ہو گا۔اچھے افراد وہ ہوتے ہیں جو خود کو زمہ دار ثابت کریں۔
اسلام نے انسان کی بہتری کے لیے جہاں انفرادی زمہ داریاں مقرر کی ہیں وہیں پہ معاشرے کی بہتری کے لیے اجتماعی زمہ داریوں کا تصور بھی پیش کیا ہے اسلام کی طرف سے مقرر کردہ ان اجتماعی زمہ داریوں کی ادائیگی سے پر امن اور خوشحال معاشرہ تشکیل پاتا ہے ۔اگر معاشرے کے افراد ان معاشرتی زمہ داریوں کو چھوڑ کر رزائل کو اختیار کریں تو معاشرہ بدحالی اور لڑائی جھگڑوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے اسلام ایک خوشحال معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے اس لیے وہ معاشرے کو اخلاق فاضلہ پر استوار کرتا ہے۔
محاسن اخلاق
محاسن اخلاق سے مراد وہ اخلاق جو انسان کی سیرت و کردار پر مثبت و اعلی اثرات مرتب کرتے ہیں۔اگرچہ اسلام میں محاسن اخلاق کی ایک طویل فہرست ہے مگر یہاں چند اہم محاسن اخلاق کا ذکر کیا جاتا ہے
نمبر01) دیانت داری :
دیانت کا لفظ دین سے ہے جو مذہب کا مترادف ہے۔دیانت داری کو ایمانداری کہا جاتا ہے۔کسی کی امانت کو لوٹا دینا حکومت یا کسی ادارہ کی طرف سے ملے ہوئے اختیارت کو مقررہ اصولوں کے مطابق استعمال کرنا ، کاروبار کا اسلامی اصولوں کے مطابق چلانا اور کسی کے راز کو امانت سمجھنا بھی دیانتداری کہلاتا ہے۔
نمبر02) ایفائے عہد
ایفائے عہد کا معنی ہے اپنے قول کو نبھانا اور عہد کو پورا کرنا ایفائے عہد محاسن اخلاق میں سے ایک اعلی خلق ہے۔اس لیے کے یہ صفت انسان کو زمہ دار شخص بناتی ہے۔اور اس صفت کے نہ ہونے سے انسان کا معاشرے میں اعتبار ختم ہو جاتا ہے۔
نمبر03) سچائی
سچائی کو عربی میں صدق کہا جاتا ہے۔جس کو معنی ہے سچ بولنا سچ کر دکھانا، سچا ہونا۔ سچائی ایک ایسی عالمگیر حقیقت ہے جسے تسلیم کیے بغیر انسان سکھ چین کا سانس نہیں لے سکتا۔سچائی انسان کو ہر آفت سے محفوظ رکھتی ہے اور جھوٹ اسے ہلاک کر دیتا ہے۔
نمبر04) عدل و انصاف
عدل کا لغوی معنی سیدھا کرنا ‘ برابر تقسیم کرنا ‘ توازن قائم کرنا انصاف کا معنی ہے کسی چیز کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرنا۔اصطلاحی مفہوم میں عدل و انصاف سے مراد یہ ہے کہ حق دار کو اس کا حق دلایا جائے۔ظلم و زیادتی کا ازالہ کیا جائے حق غصب یا تلف کرنے والے کو ایسا کرنے کی سزا دی جائے ۔ظلم و زیادتی عدل کی ضد ہے۔
نمبر05) احترام قانون
معاشرے میں نظم و ضبط قائم رکھنے کے لیے قانون وضع کیے جاتے ہیں۔اگر ہر شخص کی آزادیوں کی حدود مقرر ہو جائیں تو ان کی حدود میں ان آزادیوں سے فایدہ اٹھا کر ملکی ترقی کے لیے کام کر سکتا ہے۔معاشرے میں قانون کا احترام مفقود ہو جائے تو معاشرے میں امن و سکون ختم ہو جاتا ہے۔ایسا معاشرہ جنگل کی مانند ہے جس کا جو جی چاہے گا کرے گا۔
نمبر06) کسب حلال
کسب حلال سے مراد ان طریقوں سے روزی کمانا ہے جن کو اسلام نے جائز قرار دیا ہے۔کسی کا حق غصب کر کے یا کسی کا استحصال کر کے یا کسی کو دھوکہ دے کر روزی کمانا حرام ہے۔اسلام میں جائز ذرائع اور حلال طریقوں سے رزق کمانا عین عبادت ہے اور ناجائز طریقوں سے دولت حاصل کرنا حرام ہے۔اسلام کے مطابق درج ذیل ذرائع سے حاصل کیا گیا رزق حرام ہے۔
سود ‘ ذخیرہ اندوزی ‘ ناپ تول میں کمی ‘ زیادہ نفع حاصل کرنے کے لیے چیزوں کے معیار کو گرا دینا اور اچھی قیمت وصول کرنا ‘ جوا ‘ ملاوٹ ‘ چوری ‘ غصب شدہ مال ‘ رشوت ‘ شراب سمیت دوسری حرام چیزوں کی تجارت ‘ حکومت کی طرف سے ممنوع ذرائع جیسے سمگلنگ ‘ منشیات فروشی وغیرہ .لہذا مندرجہ بالا جملہ معاشرتی زمہ داریوں پہ عمل کرنے سے ہی ، برائیوں سے پاک ‘ ہر سکون ‘ خوشحال اور صحت مند معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔