ہم نے لیلتہ القدر کے فقط چند اعمال رکھے ہوئے کہ دو رکعت نماز پڑھنی ہے،قرآن سر پر رکھنا ہے،اتنی مرتبہ یہ نام لینے ہیں اور پھر اس کے بعد ثواب لے کر چلے جانا ہے۔ہم نے دین کا فلسفہ ثواب رکھا ہوا ہے،سارے کام ثواب کیلئے کرتے ہیں ثواب رغبت دین ہے لیکن فلسفہ دین نہیں ہے۔طبیب اور ڈاکٹر اپنے مریض کو دوا کھلانے کیلئے کئ حیلے کرتے ہیں،کچھ بامعرفت اور باشعور مریضوں کو آپ مہنگی دوائی بھی لکھ کر دیں تو وہ قبول کرکے دوائی لےلیتے ہیں مگر بعض ایسے ہیں جو نہیں مانتے۔
ہمارے ایک مریض دوست کو ڈاکٹر صاحب نے انسولین لکھ دی تو بہت گھبرائے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح سے یہ انسولین معاف ہو جائے،کچھ دن بعد ڈاکٹر نے انسولین معاف کردی،پھر انہوں نے بتایا تو ہم انہیں مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ انسولین کے نام سے آپ ڈر جاتے ہیں کیونکہ ہمارے یہاں انسولین کا تصور ہی کچھ اور ہے،ہمارے ہاں یہ تصور ہے کہ انسولین اسے دی جاتی ہے جو بیماری کے آخری درجہ تک جاپہنچا ہو اور بس چند ہفتوں کا ہی مہمان ہو اور ڈاکٹر حضرات مریضوں کو ایسے رغبت دلاتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح اسے راضی کرلیتے ہیں،جیسے چھوٹے بچہ کو بہلایا جاتا ہے،وہ جب سکول نہیں جاتا تو اس کی ماں اسے تیار کرنے کیلئے کھلونے اور اچھے اچھے کھانے کے وعدے دیتی ہے،یہ بچے کا ثواب ہے،لیکن علم اس کی حیات ہے اس مستقبل اور اس کی بقا ہے،اس علم تک چھوٹے بچے کو پہنچانے کیلئے اس کے والدین بہت جتن کرتے ہیں کیونکہ اس کے والدین کریم،رحیم ومہربان ہوتے ہیں۔
رحیم ومہربان اپنے ماتحت اور زیر کفالت افراد کو پروان چڑھانے کے لئے حیلے استعمال کرتے ہیں،اس کی ذہنی سطح کے مطابق وعدے کرتے ہیں،اگر نابالغ ہے تو نابالغوں والے وعدے دیتے ہیں،اگر بالغ ہے تو بالغوں والے وعدے دیتے ہیں،ہم سے دو رکعت نماز پڑھانے کیلئے خدا نے کتنے اور کس طرح کے وعدے دئیے ہیں اور جہنم سے ڈرایا ہے تاکہ دو سجدے اس کی بارگاہ میں کرلیں ،یہ ثواب وعقاب رغبت کے لیے ہے تاکہ ہم عبادت کریں لیکن فلسفہ عبادت ثواب نہیں ہے،امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: پروردگار! میں تیری عبادت جہنم کے خوف اور جنت کی لالچ میں نہیں کرتا بلکہ اس لئے کرتا ہوں کہ تو لائق عبادت و پرستش ہے۔۔۔