ایک بوڑھی عورت کی کہانی
اس بوڑھی عورت کے پاس صرف 5 درہم تھے_اس نے سوچا ان 5 درہم سے تو 2یا 3 دن کا راشن ہی آسکتا ہے اس کے بعد کیا کروں گی ؟ بڑھیا بازار گئی اور 2 درہم کا کھانا خرید اور باقی 3 درہم کی اون خرید لی_3 درہم کی اون سے وہ کپڑے بن کر بازار میں 5 درہم کے بھیچ دیتی_اسی طرح بڑھیا کا گزر بسر ہو رہا تھا_ایک دن 3 درہم کی اون خرید کر گھر واپس آ رہی تھی کہ اچانک ایک چیل آئی اور وہ اون بڑھیا سے چھین کر چلی گئی_
اب بڑھیا کے پاس صرف 2 درہم کا کھانا ہی بچا تھا بڑھیا سوچ رہی تھی کے اب اس کا کیا بنے گا_یہ اون اس کی پوری کائنات تھی_بڑھیا کی غیرت اسے یہ اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے_وہ ایک عالم کے پاس گئی اور عالم سے پوچھا کہ آپ مجھے یہ بتاؤ کہ ہمارا خدا کریم ہے یا ظالم؟عالم نے بڑھیا سے پوچھا کہ کیا ہوا تو بڑھیا نے اپنی ساری کہانی سنا دی کے کہ کس طرح چیل کی روئی لے گئی_ابھی بڑھیا نے اپنی بات ختم کی ہی تھی کے اچانک عالم کے دروازے پر 10 تاجروں نے دستک دی_ عالم نے اندر بلایا تو وو بولے کہ ہم ایک کشتی میں تجارت کا سامان لے جا رہے تھے_
اچانک کشتی میں سوراخ ہو گیا اور کشتی ڈوبنے لگی_ہم نے خدا سے دعا کی اور منت مانی کہ ہم میں سے ہر بندہ 1 ہزار درہم صدقے کے لئے دے گا_ہماری کشتی کے اوپر ایک چیل گزری جس کے پنجوں میں کافی مقدار میں روئی تھی_اس نے وہ روئی کشتی میں پھینک دی اس روئی کو ہم نے کشتی کے سوراخ پر رکھا تو کافی حد تک پانی رک گیا_ کشتی ساحل کے کنارے پہنچ گئی ہماری جان بچ گئی اور ہمارا سارا سامان محفوظ رہا_ہم مل کر یہ 10 ہزار درہم آپ کو دیتے ہیں تاکہ کسی مستحق کو صدقے کے طور پر دے دیں_جب وہ تاجر وہاں سے روانہ ہوئے تو عالم نے بڑھیا سے کہا کے اس صدقے کا تجھ سے زیادہ مستحق اور تو کوئی بھی نہیں ہوسکتا عالم نے بڑھیا کے ہاتھ میں 10 ہزار درہم تھماتے ہوئے کہا کہ اب میں تم سے سوال پوچھتا ہوں_کہ خدا کریم ہے یا ظالم؟بڑھیا کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے_بڑھیا نے خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے کہا کہ میرا پروردگار بہت بڑا کریم ہے_اس کی عظمت اور فیصلوں کو ہمارا ناقص عقل نہیں سمجھ پاتا_
ہم ایک نعمت کے چلے جانے پر رونے لگتے ہیں مگر آنے والا وقت ہمارے لیے کتنی خوشیاں لے کر
آئے گا، ہم اس چیز سے ناواقف ہوتے ہیں