Skip to content

ذہنی تناؤ کا علاج کرنے والے ماہرِ نفسیات خود ہمت ہار گئے

چند ہفتے قبل جب اسلام آباد میں بائیسویں گریڈ کے ایک سرکاری افسر خرم ہمایوں نے خود کشی کی تھی تو راقم طراز نے یہ نتیجہ نکالا کہ اصل کامیابی انسان کا اطمینان ہے جو کہ ایک طرف دیہاڑی دار مزدور کو بھی حاصل ہو سکتا ہے تو دوسری طرف، تین بار وزیراعظم رہنےاور پوری دنیا میں پھیلا ہوا کاروبار رکھتے ہوئے بھی نواز شریف جیسے انسان کومطمئن اور خوش نہیں کر سکتا۔

ابھی اس ناخوشگوار واقعے کی اداسی ختم نہیں ہوئی تھی تو دو دن پہلے ملتان شہر میں ایک ماہرِ نفسیات ڈاکٹر محمد اظہر حسین نے تین بچوں کی ماں اپنی بیٹی ڈاکٹر علیزہ حیدرکو گولی مارکر خود بھی خود کشی کر لی۔ بلاشبہ خودکشی بذاتِ خود ایک پریشان کن بات ہے مگر تقدیر کی ستم ظریفی یہ ہے کہ لوگوں اور عام انسانوں کی پریشانیوں کا علاج کرنے والا خود اپنی گھریلو ٹینشنز کو برداشت نہیں کر سکا۔مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق اس نے خود کشی کے لئے وہی ہتھیار استعمال کیا تھا جس سے اس نے اپنی بیٹی کو ہلاک کیا تھا۔وہ 66 اور اس کی بیٹی 35 سال کی تھی۔پولیس اور فرانزک ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں اور لاشوں کو نشتر اسپتال ملتان منتقل کردیا گیا ، پولیس نے تفتیش شروع کردی ہے۔

ڈاکٹر حسین نشتر اسپتال ملتان سے پروفیسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے اور ریٹائرمنٹ کے بعد نجی کلینک چلا رہے تھے۔ان کے اہل خانہ نے پولیس کو بتایا کہ اس نے اپنی بیٹی کو گھریلو معاملے پر مارا ہے۔یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر حسین خود بھی پچھلے دو مہینوں سے ذہنی بیماری میں مبتلا تھے۔علیزہ ایک ڈاکٹر بھی تھیں اور وہ نشتر میڈیکل یونیورسٹی سے ایف سی پی ایس کررہی تھیں جب ان کے شوہر نشتر اسپتال میں ڈاکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ڈاکٹر علیزہ نے برطانیہ سےنفسیاتی تعلیم میں ایم آر سی پی کی تھی اور اس نے کچھ سال پہلے ہی شادی کی تھی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق وہ ڈاکٹر حسین کی اکلوتی بیٹی اور تین بچوں کی ماں تھی۔

یہ معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ عام انسانوں کے دکھوں کا مداوا کرنے والے ڈاکٹر خود کشیاں کرنے لگے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان بالآخر ایک کمزور سی تخلیق ہے جو کسی بھی اعلیٰ مقام تک پہنچ جائے اسکی قوتِ برداشت کی ایک حد ہوتی ہے۔ اس لیے ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے پیاروں کے ساتھ محبت سے پیش آ نا چاہیے۔

2 thoughts on “ذہنی تناؤ کا علاج کرنے والے ماہرِ نفسیات خود ہمت ہار گئے”

  1. بے شک سکون رب کی عطا سے ہی ممکن ہے ورنہ نفسیاتی مریض کوئی بھی امیر نہ ہوتا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *