جدید دور کی تعلیم اور ہمارا نظام
جیسا کہ دنیا کے کچھ اس ایسے مختلف شعبے ہیں جو دن بہ دن ترقی کر رہے. اگر ہم ٹیلی کمیونیکیشن کی بات کریں تو پہلے صرف ٹیلیفون ہوا کرتی تھی اور دنوں تک انتظار کرنا پڑتا تھا بات کرنے کے لیے لیکن آج کل سمارٹ فون آگئے ہیں جس سے منٹوں میں بات چیت ہو جاتی ہے. اور اب ٹرانسپورٹ کی بات کریں تو اس میں بھی ترقی آگئی ہے. ایسے ہی ان سب کے ساتھ دنیا میں تعلیم نظام نے بھی بہت ترقی کی ہے،لیکن افسوس کہ ہمارے ملک اور معاشرے میں ابھی تک کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے. ہمارے ملک کا تعلیمی نظام دوسرے ملکوں کے نسبت بہت پیچھے ہے. اور اگر سندھ کی بات کریں تو پرائمری، سیکنڈری اور اعلیٰ تعلیم میں صرف مایوسی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوا. وہ تعلیم کا معیار اتنا اچھا نہیں بن پایا جس سے بچے کچھ نیا سیکھتے. تعلیم تو ایسی چیز ہے کہ یہ قوموں کو سنوارتی ہے لیکن جو تعلیم ہم حاصلِ کر رہے، آخر اس سے ہم آگے کیوں نہیں بڑھ رے؟
اور ان کے وجوہات کیا ہیں، جب تک ہم اس پر نظر نہیں ڈالیں گے تب تک ہمیں پتا نہیں چلے گا.
ہماری سوچ یہ ہوتی ہے کہ استاد کا کام شاگردوں کو پڑھانا ہوتا ہے لیکن حقیقت میں استاد کا کام صرف پڑھانا نہیں بلکہ شاگردوں میں محنت حاصل کرنے کا شعور اور جذبہ پیدا کرنا ہے. ایک استاد ساری زندگی ہاتھ سے پکڑ کر کسی شاگرد کو تو نہیں پڑھا سکتا لیکن وہ اس کو شعور دے سکتا ہے. ایک بہترین استاد اپنے شاگردوں کو آگے بڑھنے کا ہنر سکھاتا ہے، صحیح غلط کی تمیز سکھاتا ہے، اور زندگی گزارنے کے سلیقے بتاتا ہے. استادوں کا ایک کام یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے شاگردوں میں چھپی صلاحیتوں کو پہچان لیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں اور مختلف شعبہ کے لیے ان کو تیار کریں لیکن ہمارا تعلیمی نظام صرف کچھ چند شعبہ جیسے کہ ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر کے علاوہ آگے نہیں بڑھتا.
ہم میں سے سب کی عقل اور سوچنے کی صلاحیت ایک جیسی نہیں ہوتی، سب کے ذہن اور مزاج الگ الگ ہوتے ہیں. اساتذہ کو چاہیے کہ وہ شاگردوں کے مزاج کو سمجھیں اور ان کی صلاحیتوں کو سراہیں. جب مختلف سوچیں اور صلاحیتیں سامنے آئیںگی تب ہی ہمارا معاشرہ ترقی کر سکے گا. اور بچوں میں تخلیقی صلاحیتیں پیدا ہونی چاہیے. بچوں میں جب تخلیقی صلاحیتیں آجاتی ہیں تب وہ دوسروں کی کتابوں کو رٹا لگانے کا نہیں سوچتے بلکہ خود کی کتابیں لکھنے کا سوچتے ہیں.
اب سوال یہ ہے کہ کیسے تعلیمی نظام کو بہتر بنایا جا سکے جس سے بچوں کو کچھ نیا سیکھنے کو ملے اور ان میں صلاحیتیں پیدا ہو سکیں.
ہمارے تعلیمی نظام میں زیادہ تر شاگردوں کو بڑے بڑے سوالات اور جوابات یاد کرنے کو دیے جاتے ہیں جس کو وہ رٹا لگاتے ہیں اس طرح سے ان سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت نہیں رہتی. سوال چھوٹے ہی ہوں پر ان میں سمجھنے والی بات زیادہ ہو ایسا کرنے سے بچوں کا ذہن تخلیقی بن جاتا ہے.
شاگردوں میں مختلف صلاحیتیں ہوتی ہیں سب ایک جیسے نہیں ہوتے اس لیے ان کی صلاحیتوں کی حوصلہ شکنی نہیں، بلکہ حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تا کہ وہ آگے کی منزل تک پہنچ سکیں.
جو کچھ بھی پڑھایا جائے، اس کی بصری تصویر بھی ہونی چاہیے تا کہ جب بچے تصویر کو دیکھیں تو کسی بھی بات کو وہ جلدی سے ذہن نشین کر لیں.
سیمینار اور ٹورز ہونے چاہیے جس سے بچے مزے کے ساتھ کچھ سیکھ سکیں اور ماحول کا لطف اٹھا سکیں. ایسے ہی کچھ باتوں پر عمل کرنے سے ہمارا تعلیمی معیار کچھ بہتر بن سکتا ہے.
Today’s is 24 January International day of Education
از قلم : پرھ رشید