آپ نے کبھی اپنی سالگرہ منائی ہے یا اپنے بچوں کی یا کسی دوست نے انوائٹ کیا ہو پر اکثر آپ نے دیکھا ہوگا کہ سالگرہ پر کیک ہی کاٹا جاتا ہے یہ رواج کب سے کیسے کیوں ہیں ۔
آپ نے کبھی نہ کبھی تو یہ محسوس کیا ہوگا۔ کیا کوئی سالگرہ بنا کیک کے منائی نہیں جا سکتی ۔ اور سالگرہ کے کیک پر من موم بتیاں کیوں لگائی جاتی ہیں ۔ کیا کیک کے اوپر موم بتیوں کا لگانا ضروری ہے۔
موم بتیوں کو سالگرہ کے کیک کے اوپر لگانا لگا کے ان کو جلانا جلا کے پھر ان کو بوجھانا یہ سب کیا ہے ۔ یہ کیوں ہے یہ کب سے تو چلو سن لو کہ یہ روایت کہاں سے آئے ہیں
پاکستان سمیت دنیا بھر میں کہیں پر بھی کسی کی بھی سالگرہ ہوتی ہے تو ۔ اچھے سے اچھا کیک منگوا کے کاٹا جاتا ہے ۔ اور کیک کے اوپر موم بتیاں جلائی اور بجھائی جاتی ہیں ۔پانچویں صدی اور پندرہویں صدی کے درمیان اس کیک کے رواج کا آغاز ہوا یہ تاریخ بتاتی ہے ۔ جرمنی کے لوگ اپنے بچوں کی سالگرہ کیک کاٹنے سے مناتے تھے۔اور اس رسم کو کنڈر فیسٹ کہا جاتا تھا ۔
اس وقت میں سالگرہ کے کیک موٹے اور روٹی نما ہوتے تھے اس قسم کے کیک کو “جبرٹسٹاگورٹن “کہا جاتا تھا ۔وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ اس کیک میں میٹھا بھی شامل کیا گیا.
سترہویں صدی میں کیک کے ڈیزائن میں کئی تبدیلی آئی اور بہت ساری اشیاء شامل کی گئی ۔ کے پھولوں سے سجایا جانے لگا ۔ کیک کی قیمت میں اضافہ ہونے کے بعد امیر طبقہ کے لوگ ہی صرف اپنی یا اپنے بچوں کی سالگرہ پر کیک خریدتے تھے ۔
کچھ عرصے بعد کیک میں شامل ہونے والی اشیا سستی ہونے لگی کیک بنانے والوں میں بھی بہت زیادہ اضافہ اور کیک مناسب ریٹ میں ملنے لگے ۔اور کیک پر لگی موم بتیوں کو سجانے کا رواج قدیم زمانے کے یونانیوں سے ہوا یونانی لوگ اس طرح کا رواج چاند کی دیوئ “آرتھمس ” کی خاطر داری کے لئے کرتے تھے ۔ یونانیوں کے مطابق موم بتیوں کی چمک چاند کی چمک جیسی ہوتی ہے ۔
ایک جماعت کی تحقیق کے مطابق کے اوپر موم بتیاں لگانے کا رواج بھی جرمنی سے ہوا تھا ۔
شکریہ