پانی کے ذخیرے-(طارق منظور ملک)

In عوام کی آواز
January 23, 2021

پانی قدرت کا انمول تحفہ ہے –اس کے بغیر زندگی کا تصور نا ممکن ہے- کرہ ارض پر زندگی کا وجود پانی کی وجہ سے ہے-باقی سیاروں میں زندگی کی علامات نہ ہونے کی وجوہات میں ایک وجہ پانی بھی ہے-اگر مریخ پہ پانی ہوتا تو وہاں بھی لوگ آباد ہوتے-اس کا بہاؤ اوپر سے نیچے ہوتا ہے-یہ بلند ی سے پستی کی طرف بہتا ہے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اور ہر کسی کو معلوم ہے-انسانی جسم میں یہ 60فیصد ہوتا ہے-
اس کو حکمت عملی سے استعمال کرنا چاہیئے-ہمارے گھروں میں اس کو استعمال کرنے کے مناسب طریقے موجود ہوتے ہیں-ہم زیر زمین پانی کے ذخیرے کا ٹینک بناتے ہیں-بالکل اسی طرح ہم گھروں کی چھتوں پہ بھی پانی کے ذخیرے کا ٹینک بناتے ہیں – اوپر والے ٹینک تک ہم ایک سسٹم کے تحت پانی پہنچاتے ہیں یعنی پمپ کے زریعےاوپر لے جاتے ہیں اور پھر گھر کے اندر نل اور ٹوٹیاں لگا کے ان کے ذریعے مکمل کنٹرول کے ساتھ استعمال کرتے ہیں –یہ ایک اور بحث ہے کہ ہم پانی کا استعمال صحیح نہیں کرتے مگر وہ مکمل طور پر ہمارے کنٹرول میں ہوتا ہے – جتنا چاہیں جب چاہیں ہم استعمال کریں-ہم اسے اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر سکتے ہیں-
ملکی سطح پر ہم نے اسے کنٹرول کرنے کے لیے صرف دو بڑے ڈیم بنائے ہیں منگلا اور تربیلا ڈیم- جبکہ چھوٹے ڈیمز میں آزاد کشمیر میں نیلم جہلم -گلگت میں کاتژارہ ، ست پارہ اور بانچی ڈیم –بلوچستان میں آکڑہ کور،حب، مانگی،میرانی،نولانگ اور سبکزئی ڈیم- کے پی کے میں ڈانڈی،درگل،گومل زم،علی خاور،چنگوز،تاندہ،خان خاور،خان پور،نریاب اور وارسک ڈیم سندھ میں دراوت ، چوٹیاری اور نئی گاج –جبکہ پنجاب میں غازی بھروتہ ،جاوا،نمل،شاہ پور اور ڈھوک ٹھلیاں –یہ بہت کم تعداد ہے-ہمارے دریاؤں کے کنارے پختہ نہیں اور وہ مادر پدر آزاد چل رہے ہیں-بارشوں کے موسم میں سیلاب آ جاتے ہیں اور سیلاب کا پانی بستیاں اُجاڑتا ہوا گزر جاتا ہے-وہ ہمارے جانور ، ہماری فصلیں اور ہمارے گھروں کے ساتھ ساتھ ہمارے بچے ، بہن بھائی، ماں باپ اور عزیز و اقارب بہا لے جاتا ہے اور ہم کف افسوس ملتے رہ جاتے ہیں –پاکستان کو بنے 73 سال ہو گئے –ہم نے اس طرف توجہ نہیں دی-دریاؤں کے کنارے پختہ نہ کرنے کی وجہ سے ہماری زمینیں دریاؤں کے کٹاؤ کی وجہ سے برباد ہو رہی ہیں-
پانی کی ایک ایک بوند-
حکومت کو چاہیئے کہ وہ پانی کی ایک ایک بوند کو ذخیرہ کرنے کا اہتمام کرے –مون سون کی بارشوں کے پانی کو وہ کنٹرول میں لانے کا بندوبست کرے – لوگوں کے جان و مال کی حفاظت حکومت کی اوّلین زمہ داری ہے-ہمیں جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے ڈیم بنانے چاہیئے-ہمیں ایسی لوکیشن اور سائٹس تلاش کرنی چاہیئے جہاں پانی ذخیرہ کرنا نسبتا” آسان ہو – جہاں بہت کم خرچ سے ہم بہت سا پانی ذخیرہ کر سکیں-پانی کے یہ ذخیرے ہم جب فصلوں کو پانی کی ضرورت ہو تو زیرِاستعمال لا سکیں – جب انسانوں کو ضرورت ہو تو ہم اس سے انسانی ضروریات پورا کر سکیں –
دریاؤں کے کنارے بھی پُختہ کریں-پہاڑی علاقوں میں تو دریا محدود ہوتے ہیں –وہ تنگ اور پہاڑی راستوں میں محدود شکل میں ہوتے ہیں مگر میدانی علاقوں میں آتے ہی یہ لا محدود ہو جاتے ہیں –دریاؤں کو محدود راستوں اور زمینوں تک رسائی ہونی چاہیئے-بلکہ دریاؤں کے پختہ کناروں پہ ہمیں ہائی ویز بنانے چاہیئے-ہمارے ملک میں گڈز اور لاجسٹک کی ٹرانسپوٹیشن بھی دریاؤں کے ذریعے کرنے کا سوچنا چاہیئے-کراچی سے پشاور اور پشاور سے کراچی –ہمیں اپنا سامان دریائے سندھ کے زریعے بھیجنا چاہیئے-
پانی سیلاب کی صورت میں ایک ناگہانی آفت ہے-جیسے ہم اپنے گھروں میں اسے قابو میں رکھتے ہیں بالکل ویسے ہی ملکی سطح پر بھی اسے قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے-
ہمارے کسان کو جب پانی کی ضرورت درپیش ہوتی ہے – ہماری نہروں میں پانی نہیں ہوتا –محکمہ انہار وجہ یہ بتاتا ہے کہ ہم باری باری نہروں میں پانی چھوڑتے ہیں – اگر ہمارے پاس پانی کے بے بہا زخیرے ہوں گے تو ہمیں کسانوں کا پانی بند نہیں کرنا پڑے گا –دوسرے ہماری نہروں کا پانی نہر کی ٹیل تک نہیں پہنچتا-اگر ہمارے پاس پانی کے بڑے بڑے زخیرے موجود ہوں گے تو ہمارے وہ لوگ جن کی زمینیں نہروں کی ٹیلز پر ہیں وہ بھی مستٖفید ہو سکیں گے –

/ Published posts: 14

میرا نام طارق منظور ملک ہے- محنت کرتا ہوں اور کام کے معیار کا خیال رکھتا ہوں-ڈی جی سکلز سے لکھنے کی سکل سیکھی ہے اور اپنے کالم لکھنے کا شوق ہے-

Facebook