Skip to content

یادوں کی بارات قسط نمبر1

یادوں کی بارات ( قسط نمبر1 ) ضرور پڑھنا

پاکستان خصوصا پنجاب کی دھرتی نے علماءدیوبند میں خطابت کے ہیرے پیدا کیے 70, 80 اور 90 کی دہائی میں جو علماء ملک اور بیرون ملک خطابت کے سرچشمے مانے جاتے تھے ان میں مولانا ضیاءالقاسمی اور مولانا سید عبدالمجیدندیم سرفہرست تھے اس دور میں قاری حنیف ملتانی ، عبدالشکور دین پوری ، عبدالستار تونسوی ، مولانا حق نواز جھنگوی وغیرہ جیسے علماء و خطباء کی موجودگی اور انہی میں سے جس شخصیت نے اپنی الگ حیثیت اور خطابت کا لوہا منوایا اس شخصیت کا نام حق و صداقت کی نشانی امام انقلاب علامہ خان احمدسعیدخان ملتانی رح ہے،، سید عبدالمجید ندیم شاہصاحب اردو ترنم کے بانی تھے اور ہمارے امام انقلاب پنجابی ترنم کے امام کہلوائے،،، مولانا ضیاءالقاسمی حضرت شیخ القرآن رح کے شاگرد تھے اور انکی قربت کی وجہ سے ان کو پوری دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا اور ان کی خطابت کی وجہ سے خطیب یورپ و ایشیاء کے لقب سے مشہور ہوئے ،، آج کی قسط میں چونکہ دو واقعات میں ان کا تذکرہ ہے اس لیے انکا تعارف کروایا گیا

اکرام اللہ نام کا ایک شخص ملتان پولیس میں ملازم تھا اس کے قاسمی صاحب کیساتھ گہرے تعلقات تھے جنوبی پنجاب میں انکی رہائشگاہ اکرام اللہ کے پاس ہی ہوتی تھی ایک بار کسی دوست کے کہنے پر اکرام اللہ نے علامہ احمدسعیدخانصاحب رح کا جلسہ رکھوایا جب قاسمی صاحب کو علم ہوا تو انہوں نے بجائے مخالفت کے کہا میں بھی چتروڑی صاحب کی تقریر سنوں گا مگر میرا کسی کو پتا نہ چلےاس کا حل یہ نکالا گیا کہ جلسہ گاہ کیساتھ ایک بند کمرہ میں بلب آف کر کے قاسمی صاحب کو بٹھایا گیا اور کھڑکی کو کھلا رہنے دیا ،، مولانا ضیاءالقاسمی اپنے حلقہ میں سیرت و شہادت عثمان غنی ؓ بیان کرنے میں خاصی شہرت رکھتے تھے اس دن قدرتی طور پر یہ مضمون امام انقلاب نے بیان کرنا شروع کردیا اکرام اللہ کہتا ہے کہ میں دوران تقریر کمرہ میں گیا کہ دیکھوں استاد جی سو گئے ہیں یا کوئی ضرورت تو نہیں جونہی اندر داخل ہوا خطیب یورپ و ایشیا کی دونوں آنکھوں سے زارو قطار آنسو جاری ہیں اور ہچکی بندھی ہوئی ہے میں کچھ کہے بغیر انہی قدموں واپس لوٹ گیا بعد میں قاسمی صاحب نے کہا تقریر کر کے رلانا تو میں جانتا تھا مگر آج تقریر سن کر رونا بھی مجھے آگیا

1991 جامعہ اسلامیہ فیصل آباد میں امام انقلاب رح اور علامہ نعمانی رح کا پروگرام تھا وہاں چنیوٹ کے علاقہ کے دو مولوی ( حیاتی مماتی ) جو آپس میں رشتہ دار تھے آپس میں مذہبی شدت کی وجہ سے لڑتے جھگڑتے رہتے تھے وہ بھی بمعہ شاگردوں کے جلسہ میں موجود تھے جب علامہ رح نے اموات غیر احیاء پہ سماع موتیٰ کا رد کیا تو ایک نے کہا ” ہنڑ سنڑ پیو نوں بعد وچ یاوں یاوں نہ کریں ” یہ سنتے ہی مولوی اپنے شاگردوں کساتھ اٹھ کھڑا ہوا اور فیصل آباد کے بھی کچھ طالعلم ان کے ساتھ ملکر ہلڑ بازی اور فساد کرنے لگ گئے اسی اثنا میں اوپر گیلری میں موجود چنیوٹ کے کشمیری مجاہد لیاقت نے اپنی بیلٹ اتار کر سب واہیاتیوں کی دھلائی کردی ایک ہٹا کٹا مولوی بار بار امام انقلاب رح کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتا اس کو خانقاہ ڈوگراں کے مولانا عبداللہ راشد صاحب جو محراب کے پاس کھڑے تھے دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر محرب کے اندر پٹخ دیا اور کہا ایتھے مر ایتھے جب صورت حال کنٹرول ہوئی تو حق و صداقت کی نشانی امام ربانی رح نے وفات النبی ؐ پر 21 احادیث بمعہ اسناد سنائیں
بعد میں مدینة العلم والے مولانا ضیاءالقاسمی صاحب کے پاس گئے اور شکائت کی جواب میں انہوں نے کہا اشاعت والے اپنی مسجد میں بیان کررہے تھے تمہارے گھر تو نہیں آئے تم نے جان بوجھ کر چھیڑا ہے تمہاری یہی سزا بنتی تھی .

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *