پشاور کے باغات پشاور کی خوبصورتی
نزہت قُریشی
پشاور کے باغات:۔ پشاور کو پُھولوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ اسے پُھولوں اور خُوشبو کی وجہ سے انفرادیت اور مقبولیت حاصل ہے۔ کسی زمانے میں یہاں ہر طرف باغات تھے۔پُھولوں کی روشیں اور درختوں کی قطاریں تھیں۔ گرمی کے موسم میں مسافر ان کی ٹھنڈی چھاؤں میں آرام کرتے اور پھر اپنی منزل کی طرف بڑھ جاتے۔ لیکن آج پورے شہر میں کم ہی باغات باقی ہیں۔ اور ہیں بھی تو اُن کی وہ خوبصورتی باقی نہیں رہی۔
نمبر1۔ جناح پارک :۔ جناح پارک کا پُرانا نام کن انگھم پارک تھا۔ جس کو قیام پاکستان کے بعد جناح پارک کا نام دیا گیا۔ یہ باغ قلعہ بالا حصار کے مد مقابل واقع ہے۔ اس باغ کو تاریخی مقام حاصل ہے کیونکہ قیام پاکستان کے وقت یہاں اجلاس منعقد کیا گیا یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ یہاں کے لوگ پاکستان میں شامل ہوں گے یا انڈیا میں۔ اور اُنہوں نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا ۔ 2011 میں اس پارک کو از سر نو تعمیر کر کے اور اس میں اضافہ کر کے اس کو خُو بصورت بنایا گیا ہے۔
نمبر2۔ شاہی باغ :۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ مُغلیہ دور میں بنایا گیا۔ بادشاہ اور اُمراء جب کبھی اس علاقے میں آتے تو یہاں پر آرام کرتے تھے۔ اس میں بارہ دریاں بنی ہوئی تھیں ۔ خُو بصورت تالاب اور اُن کے کنارے پُھولوں کی کیاریاں بُہت دلفریب نظارہ پیش کرتی تھیں۔
نمبر3۔ پردہ باغ :۔ شاہی باغ کے پہلو میں عورتوں کے لیے باغ بنایا گیا تھا جس کو پردہ باغ کا نام دیا گیا ۔ پشاور کی عورتیں پردہ کرتی تھیں لہٰذا اُن کی تفریح کے لیے الگ باغ کا انتظام کیا گیا تھا۔
نمبر4۔ وزیر باغ :۔ وزیر باغ اٹھارویں صدی میں سردار فتح مُحمد خان نے تعمیر کیا ۔ یہ دُرانیوں کا دور حکومت تھا جب 1810 میں شہزادہ شاہ محمود دُرانی نے اس کی بنیاد رکھی۔ یہ باغ چار حصوں پر مشتمل تھا، ایک چھوٹا سا بنگلہ، مسجد، فُٹ بال کا میدان اور باغ ( چمن ) اس میں بڑے بڑے تالاب تھے اور اُن کے درمیان میں خُو بصورت فوارے۔ اس کے قدیم اور بڑے بڑے پیپل کے درخت اس کی وجہ شہرت ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ باغ اور اُس کی تعمیرات خستہ حالی کا شکار ہے۔اس کی کئی بار مرمت کی گئی لیکن مسلسل دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اس کی خوبصورتی ماند پڑ گئی ہے۔
نمبر5۔ خالد بن ولید پارک :۔ خالد بن ولید پارک کا پُرانا نام کمپنی باغ تھا۔ یہ باغ 1775 میں مغل دور حکومت میں تعمیر کیا گیا۔ اُس وقت اس کو شالیمار باغ کا نام دیا گیا۔ انگریزوں کے دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے کچھ کمشنروں نے اس کا دورہ کیا اور پھر 1839 میں اس کو کمپنی باغ کا نام دیا۔ پاکستان کے قیام کے بعد 1991 میں اس کو خالد بن ولید کا نام دیا گیا۔ اس میں خوبصورت پھولوں کے ساتھ بچوں کے لیے جھولے بھی بنائے گئے ہیں۔ چُھٹی کے دن لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ یہاں تفریح کے لیے آتے ہیں۔
نمبر6۔ تاتارا پارک :۔ تاتارا پارک فیز 1 حیات آباد میں تعمیر کیا گیا ہے۔ اس میں مصنو عی جھیلیں بنائی گئی ہیں ۔ باڑھ کو کاٹ کر خوبصورت دروازے بنائے گئے ہیں ۔ اس کو انسانی ہاتھوں کی مہارت نے ایک خو بصورت شاہکار بنا دیا ہے۔ اس میں بجلی سے چلنے والے جھولے ہیں ۔ جو بچوں اور بڑوں سب کی دلچسپی کا باعث ہیں-
نمبر7۔ باغ ناران :۔ حیا ت آباد 1970 میں تعمیر ہونا شروع ہوا۔ یہ پشاور کی جدید ترین آبادی ہے۔جو مکمل منصوبہ بندی کے تحت بنائی گئی ہے۔ اس میں باغ ناران بُہت بڑا اور خوبصورت باغ ہے۔اس میں نہ صرف پھولوں کی رنگینیوں کی بہار ہے بلکہ مصنوعی پہاڑیاں بنا کر اس میں مصنو عی جھرنے بھی بنائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں ایک چھوٹا سا چڑیا گھر بھی ہے۔ جہاں رنگ برنگ کے پرندوں کے علاوہ مختلف قسم کے جانور بھی رکھے گئے ہیں اور ان کو دیکھنے کے لیے لوگوں کا اور خاص طور پر بچوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔