دروازے پر مسلسل بیل بجتی جا رہی تھی پر شائستہ نہ جانے کن خیالوں کی دنیا میں مگن تھی اس کا جی آج بہت ہی اداس تھا.چند گھنٹے پہلے ہی اس کی بیٹی کی کال آئی تھی جس سے بات کرنے کے بعد وہ بہت پریشان تھی وہ نماز پڑھ کر جاۓنماز پر ہی روتے روتے سو گئی تھی.
اس کی تڑپتی روح سے ملنے آج پھر ارحم اس کے خواب میں آیا تھا. وہ ارحم جو جاگتے ہوئے بھی ہر پل اس کی سوچ کا محور ہوتا تھا.اس کا ہم سفر، ہمنوا، شریک غم اور شریکِ حیات تھا.
جب شائستہ محض پندرہ برس کی گڈیوں پٹولوں سے کھیلنے والی باغوں میں پینگیں لینے والی بھولی سی لڑکی تھی اور ارحم اس کی زندگی میں شامل ہوا تو اس سے دس برس بڑا یعنی 25 سالہ خوبرو نوجوان تھا جس کے لئے شائستہ کی عمر کوئی رکاوٹ نہ تھی بلکہ اس کا بھولپن اور خوبصورتی ہی کافی تھی. پہلے وقتوں میں یوں ہی تو رسماً بچیاں بیاہ دی جاتی تھیں.شادی کے شروع میں بھی شائستہ کو گھر گرہستی سنبھالنے کی کبھی فکر پریشانی نہ ہوئی تھی. کیونکہ ارحم فوج میں ہونے کے باعث تھوڑی بہت ہانڈی روٹی تو سیکھ ہی چکا تھا اور اپنی دلہن کو بڑے لاڈوں میں رکھتا تھا.غرضیکہ دونوں نے بہت پرسکون محبت والی عمر گزاری تھی. لوگ بھی دیکھتے تھے اور کہتے تھے کہ سورج اور چاند کی جوڑی ہے.
شائستہ کو چودھویں کا چاند بہت خوبصورت لگتا تھا ہمیشہ وہ اس رات ارحم کا ہاتھ تھامے صحن میں ٹہلنے نکل جاتی تھی ارحم اسے چھیڑتا تھا کہ میں تو اپنے چاند کو دیکھوں گا تم دیکھو اس چودھویں کے چاند کو.
آج بھی ارحم خواب میں آیا تو شائستہ روتے روتے اس کو شکایت کرنے لگی کہ “کوئی خود بھی اپنے چاند کو گرہن لگاتا ہے بھلا”
. تم مجھے تنہا چھوڑ آئے اس دنیا میں جس کے ہر پل میں ہر مصیبت ہر پریشانی اپنے سر پر لے لیتے تھے مجھ پر آنچ بھی نہیں آنے دیتے تھے موت جیسی بلا کو بھی مجھ سے پہلے تھام لیا، چلے گئے مجھے چھوڑ کر. کیوں کیا تم نے ایسا،بتاو مجھے رو رو کر پکار رہی تھی۔ اچانک ایک ہلکی سی آٹت نے یک دم سن ٹ پھیلادیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی جاری ہے۔
Sunday 6th October 2024 1:52 pm