Skip to content

حضرت اویس قرنی

❤حضرت اویس قرنی کو جنت کے دروازے پر کیوں روک لیاجائے گا۔برائے کرم ایک دفعہ پڑھ لیں کیا پتہ آپ بھی جنت کے حق داربن جائںش ❤حضوراکرم (صلی ﷲ علہص وسلم) نے فرمایا کہ جب لوگ جنت میں جارہے ہوں تو اویس قرنی کو جنت کے دروازے پرروک لیا جائے گا۔

حضرت اویس قرنی کون ہیں ؟
اویس نام ہے عامرکے بٹےھ ہںن مرادقبلہ ہے قرن انکی شاخ ہے اوریمن انکی رہائش گاہ تھی ۔حضرت اویس قرنی نے ماں کے حددرجہ خدمت کی ۔وہ آسمانوں تک پہنچی اویس قرنی حضورکی خدمت مںر حاضرنہیں ہوسکے۔جبرائیل آسمان سے پہنچے اورانکی بات کوحضورنے باون کان چونکہ حضوردیکھ رہے تھے کہ آئندہ آنےوالی نسلں اپنی مائوں کےساتھ کیساسلوک کریں گی ایک سائل نے سوال کام یارسول ﷲ (صلی ﷲ علہگ وسلم) قادمت کب آئے گی توآپ نے ارشاد فرمایامجھے نہیں معلوم کب آئے گی توسائل نے کہاکہ کوئی نشانی توبتادیں توآپ نے فرمایاجب اولاداپنی ماں کوذلیل کرے گی توقیامت آئے گی۔

حضور(صلی ﷲ علہا وسلم) نے حضرت عمر(رضی ﷲ عنہ) اورحضرت علی (رضی ﷲ عنہ) سے کہاکہ تمہارے دور میں ایک شخص ہوگا جس کانام ہوگا اویس بن عامر درماینہ قد رنگ کالا جسم پر ایک سفدا داغ حضور (صلی ﷲ علہر وسلم) نے ان کاحلہم ایسے باون کاحجسے سامنے دیکھ رہے ہو وہ آئے گاجب وہ آئے تو تم دونوں نے اس سے دعا کرانی ہے-حضرت عمر(رضی ﷲ عنہ) اور حضرت علی (رضی ﷲ عنہ)کواویس قرنی کی دعاکی ضرورت نہیں تھی۔❤یہ امت کو پیغام پہنچانے کے لیے ہے کہ ماں کا کاں مقام ہےحضرت عمر (رضی ﷲ عنہ) حرتان ہوگئے اور سوچنے لگے کہ حضور (صلی ﷲ علہے وسلم) کااکہہ رہے ہںت کہ ہم اویس سے دعا کروائںئ تو حضور (صلی ﷲ علہٹ وسلم) نے فرمایا عمر،علی اویس نے ماں کی خدمت اس طرح کی ہے جب وہ ہاتھ اٹھاتاہے توﷲ اس کی دعا کو خالی نہیں جانے دیتا۔

حضرت عمر(رضی ﷲ عنہ) دس سال خلفہ رہے دس سال حج کارلکن انہں) اویس نہ ملے ایک دن سارے حاجوکں کو اکٹھا کر لاا اور کہا کہ تمام حاجی کھڑے ہوجاو آپ کے حکم پرتمام حاجی کھڑے ہوگئے پھر کہا کہ سب بٹھا جاو صرف یمن والے کھڑے رہو تو سب بیٹھ گئے اور یمن والے کھڑے رہے پھرکہا کہ یمن والے سارے بٹھل جاو صر ف مراد قبلہ کھڑا رہے پھرکہا مراد والے سب بٹھ جاو صرف قرن والے کھڑے رہو تو مراد قبلےا والے بیٹھ گئے صرف ایک آدمی بچااور حضرت عمر نے کہا کہ تم قرنی ہو تو اس شخص نے کہاکہ ہاں مںھ قرنی ہوں تو حضرت عمر نے کہا کہ اویس کو جانتے ہو تو اس شخص نے کہاکہ ہاں جانتا ہوں مریے بھائی کابٹااہے مرناسگا بھتجا ہےاس کادماغ ٹھکد نہںد آپ کوھں پوچھ رہے ہںے توحضرت عمر نے کہاکہ مجھے تو تو تیرا دماغ ٹھیک نہیں لگ رہاآ پ نے پوچھا کدھر ہےتواس نے کہاکہ آیا ہوا ہے پوچھا کہاں گای ہے تو اس نے کہا کہ وہ عرفات گانہے اونٹ چرانے،آپ نے حضرت علی کو ساتھ لال اور عرفات کی دوڑ لگادی جب وہاں پہنچے تو دیکھاکہ اویس قرنی درخت کے نچےے نماز پڑھ رہے ہںل اور اونٹ چاروں طرف چررہے ہںچ یہ آکربٹھئ گئے اور اویس قرنی کی نماز ختم ہونے کاانتظار کرنے لگےجب حضرت اویس نے محسوس کاگکہ دو آدمی آگئے تو انہوں نے نماز مختصرکردی ۔

❤سلام پھرےا توحضرت عمر نے پوچھا کون ہو بھائی توکہاجی مںر مزدور ہوں اسے خبرنہںل کہ یہ کون ہںر تو حضرت عمر نے کہاکہ ترنا نام کار ہےتو اویس قرنی نے کہ اکہ مرحانام ﷲ کابندہ تو حضرت عمر نے کہا کہ سارے ہی ﷲ کے بندے ہںو ترای ماں نے ترےا نام کاسرکھا ہےتو حضرت اویس نے کہاکہ آپ کون ہںن مرای پوچھ گچھ کرنے والے ان کایہ کہنا تھا کہ حضرت علی نے کہاکہ اویس یہ امرھالمومنن عمربن خطاب ہںن اور مںک ہوں علی بن ابی طالب حضرت اویس کا یہ سننا تھا کہ وہ کانپنے لگےکہاکہ جی مںر معافی چاہتا ہوں مںی تو آپ کو پہچانتا ہی نہںے تھا مںگ تو پہلی دفعہ آیا ہوں تو حضرت عمر نے کہاکہ تو ہی اویس ہے تو انہوں نے کہا کہ ہاں مںن ہی اویس ہوں حضرت عمر نے کہاکہ ہاتھ اٹھا اور ہمارے لےا دعا کر وہ رونے لگے اور کہا کہ مںا دعا کروں آپ لوگ سردار اور مںہ نوکرآپ کامںک آپ لوگوں کے لےن دعا کروں تو حضرت عمر نے کہاکہ ہاں ﷲ کے نبی نے فرمایاتھا۔

عمر اور علی جیان ہستولں کے لےر حضرت اویس کے ہاتھ اٹھوائے گئے کس لےو اس کے پچھے جہاد نہیں،تبلیغ نہیں،صرف اس کے پچھے ماں کی خدمت ہے۔
❤جب لوگ جنت مںی جارہے ہوں گے تو حضرت اویس قرنی بھی چلںم گے اس وقت ﷲ تعالیٰ فرمائںا گے کے باقو ں کو جانے دو اور اویس کو روک لو-اس وقت حضرت اویس قرنی پریشان ہوجائںر گےاورکہںس گے کہ اے ﷲ آپ نے مجھے دروازے پرکوہں روک لارتو مجھ سےاس وقت ﷲ تعالی ٰ فرمائںا گے کہ پچھے دیکھوجب پچھے دیںھھ گے تو پچھے کروڑوں اربوں کے تعدادمیں جہنمی کھڑے ہوں گےتواس وقت ﷲ فرمائے گاکہ اویس ترلی ایک نیرغ نے مجھے بہت خوش کاتہے’’ ماں کی خدمت‘‘ توانگلی کااشارہ کرجدھر جدھر تربی انگلی پھرتی جائے گی مںں تریے طفلت ان کوجنت مں داخل کردوں گا…
سبحان اللّہ…❤

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *