یہ 1400 سال پہلے کی بات ہے۔فاران کی چوٹی سے اسلام کی صدا بلند ہوتی ہے اور سرزمین عرب میں گونجنی لگتی ہے۔پھر ہر طرف سے اسلام کو دبانے کی کوشش شروع ہوجاتی ہے،تمام قبائل اسلام کے خلاف متحدہ محاذ بنا لیتے ہیں،نفرت کی فضاء تعصب میں ڈوب جاتی ہے، اور رشتے مذھب پر قربان ہونے لگتے ہیں۔
جب نبوت کا اعلان ہوا تو کفار مکہ نے آسمان سر پر اٹھایا،مسلمانوں کی عصمت تار تار کرنے لگے،شب ظلمت کی آگ کو مزید بھڑکایا،آپﷺ کی مخالفت ان کی زندگی بڑا مقصد بن گیا،اذان پر پابندی ،نماز جرم بن گیا،اسلام کو مشکوک بنانا ان کا ہدف ٹھہرا،فرامین نبوت کو قصے، کہانیاں کہنا شروع کیا،صحابہؓ پر عرصہ حیات تنگ کر دی گئی،ایک وسیع زمین ان کے لیے کسی قید خانے سے کم نہ تھی۔
سوشل بائیکاٹ
کفار مکہ نے مسلمانوں کے خلاف سوشل بائیکاٹ کا اعلان کیا ،مسلمانوں کی عبادات پر پابندی عائد کی گئی،رشتے کٹے،قربتیں ختم ہوئیں ،محبت نفرت میں بدل گئی،اور دوست بھی دشمن کے ساتھ کھڑے ہونے لگے۔یہ وقت بڑا کھٹن تھا لیکن مسلمانوں نے دامن نبوت کو نہ چھوڑا ۔سب برداشت کیا۔بھوک،پیاس،ظلم اور افلاس نے ان کے ایمان کو اور مضبوط بنایا۔چھپ چھپ کر مسلمان عبادت کرتے تھے،اذان اور نماز کے لیے مسجد حرام میں جانا مسلمانوں کے لیے جرم بن گیا تھا۔لیکن اللہ کو ایسا ہی کرنا مقصود تھا۔
حضرت عمرؓ کا قبول اسلام
پھر چشم فلک نے دیکھا،تاریخ نے خود کو دہرایا،صنم خانہ سے کعبے کو محافظ مل گئے،آپﷺ کی دعا قبول ہوئی۔ وہ عمرؓ جو آپﷺ کے قتل کا منصوبہ بنا کر نکلا تھا آپﷺ کے غلام بن گئے،اسلام کا بڑا دشمن اسلام کو سہارا دینے پہنچ گیا ،آج تو بڑا خوبصورت دن تھا صحابہؓ کرام کے چہرے خوشی سے چمک رہے تھے۔حضرت عمر اور ابو جہل دو ایسے افراد تھے جن کے بارے میں آپﷺ نے اللہ کے دربار میں دعا فرمائی تھی “کہ اے اللہ عمرین میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کو قوت دیں”اور یہ دعا حضرت عمر ؓ کے حق میں قبول ہوئی ،وہ اسلام لائےاور پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا ۔
گھرمیں نماز
جب عمرؓ مشرف بااسلام ہوئے تو پورا مکہ نعرہ تکبیر کی صداؤں سے گونج اٹھا،کفار مکہ کے ایوانوں میں زلزلہ آیا،کفر کی کمر ٹوٹ گئی،اللہ اکبر کی صدائیں کافروں کے ایوانوں سے ٹکرائی تو کافر کہنے لگے “یا تو عمرؓ قتل ہوئے ہیں اور یا اسلام میں داخل ہوئے”
جب عمرؓ نے کلمہ پڑا ،نماز کا وقت ہوا صحابہؓ وضو کرنے لگے،عمرؓ پوچھنے لگے یا رسول اللہ یہ لوگ کیا کررہے ہیں؟ آپﷺ فرمانے لگے اے عمر نماز کی تیاری ہو رہی ہے۔عمر ؓ نے پھر پوچھا اے محبوبﷺ ہم نماز کہا پڑھے گے؟ آپﷺ نے فرمایا اے عمرؓ ہم اس گھر میں نماز پڑھے گے۔عمرؓ نے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا اسلام حق نہیں؟کیا آپﷺ حق پر نہیں ؟کیا قرآن حق نہیں؟تو آپ ﷺ نے فرمایا ہاں عمرؓ یہ سب حق ہیں لیکن آپ کی قوم ،کافر ہمیں کعبہ میں نماز پڑھنے نہیں دیتے۔اس لیے ہم چھپ کر نماز ادا کریں گے۔
عمر ؓ کی للکار
آپﷺ کی بات سن کر عمرؓ جلال میں آگئے،چہرے پر شدت اور غصے کے اثار نمودار ہوئے،رگوں میں خون کھول اٹھا،اسلام کی محبت غالب آگئی ،آپﷺ کی صحبت نے اپنا اثر دکھایا،پھر عمرؓ نے للکار کر کہا۔ آج نماز کعبہ میں ہوگی ،اے بلال جا آج کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دینا کیونکہ آج عمرؓ اسلام قبول کر چکا ہیں اگر ہم آج بھی چھپ کر عبادت کریں تو عمرؓ کے اسلام کا کیا فائدہ؟
بلالؓ نے اذان دی تو صحابہؓ کی عجیب کیفیت تھی ،مکہ جھوم اٹھی ،کافروں پر رعب چھا گیا،عمرؓ مکہ کی گلیوں میں تشریف لے گئے ،کافروں کے محفلوں میں پہنچ گئے اور اعلان کیا کہ آج کعبہ میں نماز ادا کی جائے گی اگر کسی نے عمرؓ سے مقابلہ کرنا ہے تو آکر راستہ روک لیں،اگر کسی نے بچے یتیم کروانے ہو تو آکر عمرؓ کا راستہ روک لیں۔لیکن کسی میں جرات نہیں تھی کہ مسلمانوں کا راستہ روک سکے۔یہ پہلا موقع تھا جب مسلمانوں نے علی الاعلان کعبہ میں نماز پڑی۔
شاہ حسین سواتی