یہ کہانی ہے دو دوستوں کی اور ان کی دوستی کی شروعات ہوئی تھی ہاسپٹل کے ایک کمرے سے جہاں پر وہ دونوں ایڈمٹ تھے دونوں میں سے جو ایک تھا اسے پیرالیسیز کا اٹیک آیا تھا جس میں اس کی نیچے کی بوڈی پیرالائز ہوگئی تھی اور وہ اپنی ایک انگلی تک نہیں ہلا پاتاتھا اور پورا دن جو بھی نرس اس کے پاس آتی انہیں وہ یہی کہتا کے مجھے ایک ایسا انجیکشن لگا دو جس سے میں مر جاؤں میں اور جینا نہیں چاہتا ایسی زندگی کا کیا فائدہ ہے
اس کا جو دوست تھا
جو چل پھر پاتاتھا وہ روز صبح اور شام کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑا ہو جاتا اور اپنے پیرالائز دوست کو بتاتا کے کھڑکی کے باہر ایک نیلا آسمان ہے سفید بادل ہیں ہلکی ہلکی ہوا چل رہی ہے اور کچھ پرندے اڑ رہے ہیں کچھ لوگ بیٹھ کر سمندر کی لہروں کو دیکھ رہے ہیں کوئی آئسکریم کھا رہا ہے کوئی پتنگ اڑا رہا ہے اور کچھ بچے کھیل رہے ہیں شروع میں تو ان باتوں کا اس کے دوست پر کوئی اثر نہیں ہوا لیکن دھیرے دھیرے اس کے دوست میں جینے کی چاہت جاگنے لگ گئی
اب وہ صبح ہونے کا انتظار کرنے لگتا
کہ میرا دوست مجھے بتائیے کہ کھڑکی کے باہر کیا ہو رہا ہے کچھ دن تک ایسے ہی چلتا رہا کے اس کا دوست اسے کھڑکی کے باہر کی دنیا بتاتا پھر ایک دن وہ صبح اٹھا دیکھا کہ سامنے والا بیڈ خالی ہے اس نے نرس سے پوچھا کی کیا وہ ڈسچارج ہو گیا ہے نرس نے کہا کیا اس نے تمہیں نہیں بتایا تھا
کے اس کے پاس بس کچھ ہی دن باقی تھے اور کل رات ہی وہ وفات پا گئے یہ سن کر وہ اندر سے بالکل ٹوٹ گیا کہ بس یہی ایک آخری امید تھی اب مجھے کون بتائے گا کہ کھڑکی کے باہر کیا ہو رہا ہے
کچھ دن تک تو وہ روتا رہا
جینے کی چاہ چھوڑ دی لیکن دوسری ہی طرف اس کے اندر ایک نئی چاہ پیدا ہوئی کے کاش مرنے سے پہلے میں خود دیکھوں اس کھڑکی کے باہر کہ یہ دنیا کیسی ہے جیسے جیسے یہ چاہ بڑھتی گئی اسے اپنے اندر ایک عجیب سی انرجی محسوس ہونے لگی اور پھر ایک دن اس نے اپنی پوری طاقت لگا دی اور بیڈ سے نیچے گر گیا اور پھر کسی طریقے سے
پکڑ پکڑ کر کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا
اور جب اس نے کھڑکی کے باہر دیکھا تو
وہ غصے سے پاگل ہو گیا اور اس نے نرس کو بلایا اور کہا یہ تم نے کیا کیا اس کھڑکی کے باہر یہ کالی دیوار کیوں کھڑی کردی نرس نے کہا میں پچھلے پانچ سال سے یہاں ہوں اور جب سے ہی یہ دیوار یہاں ہیں تب جا کے اسے سمجھ آیا کہ اس کا وہ دوست اسے جھوٹ بول رہا تھا اس نے نرس سے کہا میرے دوست نے مجھے جھوٹ کیوں بولا نرس نے مسکرا کر کہا میں یہ تو نہیں جانتی کہ اس نے جھوٹ کیوں بولا لیکن میں یہ ضرور جانتی ہوں کہ جو کچھ بھی اس نے آپ سے کہا اس کی وجہ سے آج آپ اپنے پیروں پر کھڑے ہو
تو اس کہانی سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ جو ہمارے الفاظ ہیں جو ہم اپنے منہ سے باہر نکالتے ہیں اس میں اتنی طاقت ہے کے کوئی حد نہیں کہ وہ کسی آدمی کو گرا بھی سکتے ہیں اور اسے اٹھا بھی سکتے ہیں اور یہ آپ کے اوپر ہے کہ آپ اپنی اس طاقت کا استعمال کیسے کرتے ہو