ہم اپنے الفاظوں کی طاقت سے ہارے ہوئے کو بھی جیتا سکتے ہیں

In ادب
January 13, 2021

یہ کہانی ہے دو دوستوں کی اور ان کی دوستی کی شروعات ہوئی تھی ہاسپٹل کے ایک کمرے سے جہاں پر وہ دونوں ایڈمٹ تھے دونوں میں سے جو ایک تھا اسے پیرالیسیز کا اٹیک آیا تھا جس میں اس کی نیچے کی بوڈی پیرالائز ہوگئی تھی اور وہ اپنی ایک انگلی تک نہیں ہلا پاتاتھا اور پورا دن جو بھی نرس اس کے پاس آتی انہیں وہ یہی کہتا کے مجھے ایک ایسا انجیکشن لگا دو جس سے میں مر جاؤں میں اور جینا نہیں چاہتا ایسی زندگی کا کیا فائدہ ہے

اس کا جو دوست تھا

جو چل پھر پاتاتھا وہ روز صبح اور شام کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑا ہو جاتا اور اپنے پیرالائز دوست کو بتاتا کے کھڑکی کے باہر ایک نیلا آسمان ہے سفید بادل ہیں ہلکی ہلکی ہوا چل رہی ہے اور کچھ پرندے اڑ رہے ہیں کچھ لوگ بیٹھ کر سمندر کی لہروں کو دیکھ رہے ہیں کوئی آئسکریم کھا رہا ہے کوئی پتنگ اڑا رہا ہے اور کچھ بچے کھیل رہے ہیں شروع میں تو ان باتوں کا اس کے دوست پر کوئی اثر نہیں ہوا لیکن دھیرے دھیرے اس کے دوست میں جینے کی چاہت جاگنے لگ گئی

اب وہ صبح ہونے کا انتظار کرنے لگتا

کہ میرا دوست مجھے بتائیے کہ کھڑکی کے باہر کیا ہو رہا ہے کچھ دن تک ایسے ہی چلتا رہا کے اس کا دوست اسے کھڑکی کے باہر کی دنیا بتاتا پھر ایک دن وہ صبح اٹھا دیکھا کہ سامنے والا بیڈ خالی ہے اس نے نرس سے پوچھا کی کیا وہ ڈسچارج ہو گیا ہے نرس نے کہا کیا اس نے تمہیں نہیں بتایا تھا
کے اس کے پاس بس کچھ ہی دن باقی تھے اور کل رات ہی وہ وفات پا گئے یہ سن کر وہ اندر سے بالکل ٹوٹ گیا کہ بس یہی ایک آخری امید تھی اب مجھے کون بتائے گا کہ کھڑکی کے باہر کیا ہو رہا ہے

کچھ دن تک تو وہ روتا رہا

جینے کی چاہ چھوڑ دی لیکن دوسری ہی طرف اس کے اندر ایک نئی چاہ پیدا ہوئی کے کاش مرنے سے پہلے میں خود دیکھوں اس کھڑکی کے باہر کہ یہ دنیا کیسی ہے جیسے جیسے یہ چاہ بڑھتی گئی اسے اپنے اندر ایک عجیب سی انرجی محسوس ہونے لگی اور پھر ایک دن اس نے اپنی پوری طاقت لگا دی اور بیڈ سے نیچے گر گیا اور پھر کسی طریقے سے
پکڑ پکڑ کر کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا

اور جب اس نے کھڑکی کے باہر دیکھا تو

وہ غصے سے پاگل ہو گیا اور اس نے نرس کو بلایا اور کہا یہ تم نے کیا کیا اس کھڑکی کے باہر یہ کالی دیوار کیوں کھڑی کردی نرس نے کہا میں پچھلے پانچ سال سے یہاں ہوں اور جب سے ہی یہ دیوار یہاں ہیں تب جا کے اسے سمجھ آیا کہ اس کا وہ دوست اسے جھوٹ بول رہا تھا اس نے نرس سے کہا میرے دوست نے مجھے جھوٹ کیوں بولا نرس نے مسکرا کر کہا میں یہ تو نہیں جانتی کہ اس نے جھوٹ کیوں بولا لیکن میں یہ ضرور جانتی ہوں کہ جو کچھ بھی اس نے آپ سے کہا اس کی وجہ سے آج آپ اپنے پیروں پر کھڑے ہو

تو اس کہانی سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ جو ہمارے الفاظ ہیں جو ہم اپنے منہ سے باہر نکالتے ہیں اس میں اتنی طاقت ہے کے کوئی حد نہیں کہ وہ کسی آدمی کو گرا بھی سکتے ہیں اور اسے اٹھا بھی سکتے ہیں اور یہ آپ کے اوپر ہے کہ آپ اپنی اس طاقت کا استعمال کیسے کرتے ہو