ہم لوگ بڑے جوش و خروش سے جشن آزادی مناتے ہیں ہر طرف خوشیاں جلسے جلوس نکالتے ہیں جھنڈیاں لگاتے ہیں لیکن آزادی منانے والے شاید یہ نہیں جانتے کے اس آزاد ملک کے لئے کتنی ماؤں کے لخت جگر کٹ گئے،
کتنی عصمتیں لٹ گئی،
خون کے کتنے دریا بہہ گئے،
آرزووں کے کتنے محل جل گئے،
کیا آپ جانتے ہیں آزادی کیا ہے؟
کیا آزادی یہ ہے کے ہم جو چائیں کھائیں جو چائیں پیئیں جو چاہیئیں پہنیں جیسے چاہیں زندگی گزرای؟
کیا آزادی یہ ہے کہ ہم سود کو حلال کر دیں شراب اور جوا عام کر دیں کیا آزادی یہ ہے ہم جس کہ چاہیں گلا کاٹ دیں جسکا چاہیں حق دوبا لیں , یہ آزادی نہیں ہے اگر یہ آزادی ہے تو یہ آزادی تو ہمیں ہندوستان میں بھی حاصل تھی وہاں بے پردگی کی آزادی تھی سود خوری اور شراب نوشی کی آزادی تھی فحاشی اور بد معاشی کی آزادی تھی پھر کیوں ہم نے لاکھوں بچے یتیم کروائے ذرا سوچئیے کیا ہمارا آزادی کا مقصد پورا ہوگیا کیا ہم آزاد ہو چکے ہیں اگر ہم تصورات کی دنیا سے نکل کر حقائق کی دنیا میں قدم رکھیں تو صورت حال بڑی تلخ ہے صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کھربوں روپے کا قرض دار ہے اور اس میں سود در سود لگنے کی وجہ سے روزانہ ایک اربوں روپے کا اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان کا ہر گھرانہ لاکھوں روپے کا مقروض ہو چکا ہے،
کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ قرضے کیوں لیے جا رہے ہیں یقین جانیں کے یہ قرضے صرف افسروں وزیروں اور حکومتی عہدیداروں کی عیاشیوں کے لئے لئے جا رہے ہیں۔
آج یوں محسوس ہوتا ہے کہ چند خاندانوں نے اپنی حوس کی خاطر ملک کو ورلڈ بینک اور آئ ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا ہے آئ ایم ایف والے ہمارے حکمرانوں کو جو حکم دیتے ہیں وو ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے وہ کبھی کہتے ہیں بجلی کے نرخ بڑھاؤ کبھی کہتے ہیں گیس مہنگی کرو کبھی کہتے ہیں ملازمین بے روزگار کرو اور ہمارے حکمرانوں کو یہ سارے احکامات ماننے پڑتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے جب تک ہم اللّه اور اسکے رسولؐ کی غلامی اختیار نہیں کریں گے کامیاب نہیں ہو سکتے نہ آئ ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں نہ ورلڈ بینک حقیقت یہ ہے ہم ابھی تک صیح معنوں میں آزادی حاصل نہیں کر سکتے۔
تحریر::مالک جوہر