انڈیا میں کسانوں کے متعلق ایک حکومتی قانون پاس ہونے کے بعد سے پورے انڈیا کے کسان سراپا احتجاج ہیں ـ ستمبر کے مہینے میں جب انڈین حکومت نے یہ بل پاس کیا تو شاید مودی حکومت کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ ا سے کسانوں کی طرف سے اسقدر زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا ـ انڈیا میں زیادہ تر کسانوں کا تعلق پنجاب ہریانہ سے ہے . اس کے علاوہ باقی علاقوں سے بھی کسان احتجاج کے لیے انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں جمع ہوکرکسانوں کے متعلق یہ قانون واپس لینے کے لیے بی جے پی حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں ـ کسان اس قانون کو کسانوں کے لیے تباہ کن قرار دے رہے ہیں اسی لیے وہ اس پر سراپا احتجاج ہیں ـ مودی حکومت نے اس احتجاج سے نپٹنے کے لیے ہر حربہ آزما کر دیکھ لیا ہے . پہلے پولیس نے کسانوں پر بدترین تشدد کیا اور پھر فوج کو بھی کسانوں کے اس احتجاج سے نپٹنے کے لئے بلایا گیا مگر اتنی رکاوٹ اور شدید سردی کے موسم کے باوجود کسان دہلی میں ڈیرے ڈال کر بیٹھے رہے ـ
اور اب سننے میں آرہا ہے کہ انڈیا کی سپریم کورٹ نے ان تین نئے زرعی قوانین کا نفاذ معطل کر دیا ہے ـ یہ معطلی غیر معینہ مدت کے لیے ہے اور سپریم کورٹ نے احتجاج کرنے والے کسانوں اور ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی کے نفاذ کا بھی اعلان کیا ہے ـ کسان یونین سپریم کورٹ کے فیصلے پر ابھی تبادلہ خیال کر رہی ہے مگر کسانوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے اس مطالبے پر آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں ،کہ ان قوانین کو مکمل طور پر ختم کیا ا ور واپس لیا جائے ـ ان کا کہنا تھا کہ ان قوانین کی معطلی مسئلے کا حل نہیں ہے ، بلکہ ان قوانین کا مکمل خاتمہ ہی اس مسئلے کا حل ہوسکتا ہے . جبکہ انڈین سپریم کورٹ کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے متعین کردہ ماہرین کسانوں اور حکومت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا نہیں کریں گے ـ بلکہ دونوں فریقین یعنی احتجاجی کسانوں کی یونین اور حکومت سے بات چیت کرنے کے بعد اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی جائے گی ـ سپریم کورٹ کی اس مداخلت پر انڈیا میں اپوزیشن پارٹیوں اور احتجاج پر موجود کسانوں نے الگ الگ طرح کا ردعمل دیا ہےـ
ایک وکیل کا کہنا تھا کہ ان قوانین پر روک لگا نا کسانوں کی جیت اور حکومت کی بہت بڑی ہار ہے ـ اور ان قوانین کی معطلی سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قوانین غلط تھے . جب کہ کسانوں کی مزدور یونین کے ایک رہنما، سردار پرتاب سنگھ ،کا کہنا ہے کہ یہ کمیٹی اب بنانے کا کیا فائدہ ـ جبکہ انڈیا کی اپوزیشن پارٹی کے ایک رہنما رندیپ سنگھ سوجے والا کا کہنا تھا کہ ،سپریم کورٹ کو سوچنے کی ضرورت ہے.کیونکہ سپریم کورٹ تو کسانوں کے حق میں بات کر رہی ہے مگر جو کمیٹی سپریم کورٹ نے تشکیل دی ہے وہ ساری مودی حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آ رہی ہے ـ یعنی وہ ان کالے قوانین کے ساتھ کھڑے ہیں ،
انڈیا کے کسان سخت سردی اور مشکل حالات کے باوجود بھرپور احتجاج کر رہے ہیں ـ اگرچہ یہ احتجاج پہلے پہل پنجاب اور ہریانہ تک ہی محدود تھا ، مگر نومبر میں دلی چلو کا نعرہ لگا کر ہزاروں کسانوں نے انڈیا کے دارالحکومت دہلی کا رخ کر لیا ـ اس احتجاج میں بہت سے ایسے بوڑھے سکھ کسان بھی شامل ہیں جنہوں نے انڈین فوج میں طویل عرصہ خدمات سر انجام دی ہیں ـ اور وہ اب اس احتجاج کی سختی کو برداشت کر رہے ہیں. ایک ریٹائرڈ فوجی سکھ کا کہنا تھا کہ یہ سردی کی سختی ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہےکیونکہ وہ ستائیس فٹ سے بھی زیادہ برف میں رہ چکے ہیں ان کا کہنا تھا کہ جب تک ان کا حق نہیں ملتا وہ ایسے ہی ادھر بیٹھے رہیں گے ـ
دوسری طرف مودی سرکار اس قانون سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور اس قانون کو انا کا مسئلہ بنا کر بیٹھی ہے ـ ان کا کہنا ہے کہ یہ قوانین ضروری ہیں ـ مگر کسان اور اپوزیشن پارٹی مودی سرکار کی کسی بھی دلیل سے مطمئن نہیں ہے اور کسانوں کا مطالبہ ہے کہ ان قوانین کو مکمل ختم کیا جائے ـ سخت سردی میں اپنی ٹرالیوں پر اور زمین پر رہنے والے احتجاجی کسان اتنی سردی میں بھی صبح سویرے نہا کر لنگر کی تیاری شروع کر دیتے ہیں ـ اس احتجاج کے دوران بہت سے کسان وفات پا چکے ہیں ـ
مودی حکومت کے نمائیندے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پرامید ہیں کہ یہ احتجاج اب دم توڑ دے گا ـ مگر کسانوں سے بات کریں تو سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے وہ زیادہ خوش نظر نہیں آ رہے ـ کیونکہ وہ اس قانون کے مکمل خاتمے سے کم کسی بات پر راضی ہونے کے لیے تیار نہیں ـ انڈین سپریم کورٹ کا نئے زرعی قوانین کی معطلی کا فیصلہ اور احتجاجی کسانوں کا رد عمل
1 comments on “انڈین سپریم کورٹ کا نئے زرعی قوانین کی معطلی کا فیصلہ اور احتجاجی کسانوں کا رد عمل”
Leave a Reply
حیرت انگیز کام اچھی کوشش میں بین الاقوامی خبروں کے بارے میں مزید چاہتا ہوں