دنیا میں بہت سارے لیڈر گزرے ہیں اور آج بھی لیڈروں کی کمی نہیں مقامی لیڈر بھی ہیں بین الاقوامی لیڈر بھی ہیں چھوٹے لیڈر بھی ہیں بڑے لیڈر بھی ہیں موسمی لیڈر بھی ہیں اور مستقل لیڈر بھی ہیں جو عوام کو سر سبز باغ دکھاتے ہیں اور انکی قسمت بدل دینے کے وعدے کرتے ہیں انکی تقریر سن کر یوں محسوس ہوتا ہے کے انکا ساتھ دینے سے شیخوپورہ پیرس بن جائے گا اور کوئیٹہ سوئزرلینڈ بن جائے گا۔
کچھ مزدور لیڈر بھی ہوتے ہیں جو مزدوروں کو بتاتے ہیں کہ ہمیں چن لو تمہاری تقدیر بدل دیں گے تمیں گھر بیٹھے تنخوا ملے گی یہ لیڈر اپنی سوشل زندگی میں بڑے ہمدرد بڑے جانثار بڑے رحم دل غریب پرور اور سادہ دل دکھائی دیتے ہیں لیکن ان میں اکثر پرائیویٹ زندگی میں بڑے سنگ دل بڑے خود غرض بڑے عیاش اور بڑے مکار ہوتے ہیں انکا ظاہر کچھ ہوتا ہے اور باطن کچھ ہوتا ہے وقت آنے پر یہ اپنے وطن کی مٹی بیچ کھانے کو تیار رهتے ہیں اقتدار میں آنے کے بعد یہ خزانوں اور عوام کو اسے نوچتے ہیں جیسے گدھ کسی لاوارث لاش کو ۔
یہ لوگوں کو سادگی کی تعلیم دیتے ہیں اور خود عیاشیاں کرتے ہیں یہ لوگوں کو امانت و دیانت کا سبق دیتے ہیں اور خود پرلے درجے کے خائن اور رشوت خور ہوتے ہیں یہ لوگوں کو حب الوطنی کا درس دیتے ہیں اور خود وطن فروش ہوتے ہیں اپنی نسلیں سنوارنے کی خاطر اس اس ملک کو دیمک کی طرح کھا گئے اور جب مصیبت پڑھی تو اسی اپنی سر زمین پر چڑھ دوڑھے۔
ازل سے یہی دستور چل رہا ہے جو جتنا بڑا چور ڈاکو ہوگا وہ اتنا بڑا لیڈر بھی ہوگا ہم اپنا معیار تو دیکھں جس نے کبھی اسکول کالج کی شکل نہیں دیکھی ہوتی وہ ہمارا وزیر تعلیم ہوتا ہے اور ملک کا سب سے بڑا لکڑ چور ہمارا جنگلات کا وزیر ہوتا ہے جو آواز اٹھانے کی کوشش کرے اسکی آواز رشوت سے بند کر دی جاتی ہے جو ایسے نہ بند ہو وہ ہمیشہ کے لیے خاموش کر دی جاتی ہے۔
73 سال سے ہوں پر یہ حکومت کر رہے ہیں اور جیسے ہم گونگے بہرے ہیں آگے انکی نسلیں بھی ہم پر حکمرانی کریں گی اور اس قوم کے ہاتھ میں وہی قیمے کا نان اور بریانی کی پلیٹ ہوگی ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا ملک کی خاطر کچھ کر نہ سکے چلو اپنا ریٹ ہی بڑھا دو۔
تحریر:ملک جوہر
Thursday 7th November 2024 10:31 am