کچے مکان ،
تحریر :عاصم خان
آج سے تقریبا پچیس سال پہلے جب ہم پرائمری سکول میں پڑھتے تھے ۔تو ہر طرف کچے مکانوں کی بہار ہی بہار تھی ،میرے خیال میں ہمارے معاشرے میں کچے مکانوں کا ایک خاص مقام ہے کیونکہ انسانی روح کو جو سکون مزہ راحت اور آرام کچے مکانوں میں میسر تھا اس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔کیونکہ یہ ایک فیکٹ اور حقیقت ہے کہ اللہ نے انسان کو مٹی سے بنایا ہے اور جو سکون اور مزہ انسان کو مٹی سے بنی چیزوں سے ملتا ہے ،وہ دنیا میں شاید آپ کو سونے اور چاندی سے بنی چیزوں سے بھی میسر نہ آئے ۔
کچے مکانوں کی ٹھنڈک آج کے ایئرکنڈیشن نما کمروں سے کہیں زیادہ تھی ۔اور کچے مکانوں کی گرمائش کی تو کیا بات تھی ,سردیوں میں گھر میں ایک خاص نما اگ کی انگیٹھی ہوتی تھی ۔جس کے گرد بیٹھ کر گھر کے تقریبا تمام افراد اپنی اپنی ردودات سناتے تھے ۔اور خاص کر بچے اپنی دادی یا نانی سے بما فرمائش کے ایک خاص قسم کی پریوں یا جنوں کی کہانی سنتے تھے ۔
کچے مکانوں کی بارشوں کا بھی اپنا ایک خاص مزہ تھا ۔ سردیوں کی رات میں جب بارش ہوتی تھی تو رضائی میں منہ چھپائے کچے مکانوں کی وہ ترتراہٹ آج بھی کانوں میں کہیں گونجتی ہے ۔اور گرمیوں کی بارش میں گھر کے آنگن میں وہ آنکھ مچولی آج بھی دماغ کے کسی حصے میں دھندلی تصویر کی طرح پڑی ہے ۔جسے دیکھ کر یا یاد کر کے روح کو سکون ملتا ہے ۔در حقیقت کچے مکان ہی ہماری ثقافت کی اصل عکاسی کرتے ہیں ۔ کچے مکانوں کے لوگوں کی محبت اور پیار میں ایک خالص پن تھا اور ڈانٹ میں ایک سبق تھا ۔
اس لیے میں جب اپنے وطن کو چھٹیوں میں جاتا ہوں تو اکثر اس جگہ کا وزٹ ضرور کرتا ہوں ۔جہاں میں نے بچپن سے لے کر جوانی تک کا سفر طے کیا ۔مگر اب اس جگہ کو ہر طرف سے پکے مکانوں نے گھیر لیا ہے اور یہ دیکھ کر دل کو کافی حد تک ٹھیس بھی پہنچتی ہے ۔مگر کیا کریں یہ تو وقت کی ستم ظریفی ہے ۔ میرے خیال اور ناقص سوچ کے مطابق کچے مکانوں کی زندگی کا وہ دور ہی شاید سنہری دور تھا ۔
کیونکہ تب لوگ سچے اور مکان کچے ہوتے تھے ۔