Skip to content

صحت، انسانی زندگی کی عکاسی

صحت انسانی زندگی کی عکاسی کرتی ہے۔بہتر زندگی گزارنے کے لئے ایک انسان کا صحت مند ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ انسانی دماغ نے پودے جسم کو کنٹرول کیا ہوتا ہے۔اور اگر دماغی صحت ٹھیک ہو گی تو افعال بہتر طور پر سر انجام دیے جاسکتے ہیں۔زندگی کا دارومدار صحت پر ہے۔ کیونکہ ایک صحت مند دماغ ایک صحت مند جسم میں ہی ہو سکتا ہے۔ صحت انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی عطا ہے۔ہر انسانی عضو کا ٹھیک ہونا ہی صحت مندی کی علامت ہے۔ صحت کی مختلف اقسام ہیں مثلا جسمانی صحت، دماغی صحت، روحانی صحت، سماجی صحت، جذباتی صحت، ماحولیاتی صحت۔ان تمام چیزوں کا جائزہ لیا جائے گا تاکہ صحت کی قدرومنزلت کا اندازہ ہو جائے

جسمانی صحت

اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف اعضاء سے نوازا ہے۔ مثلاہاتھ آنکھ ناک کان گلا پاؤں ٹانگیں دل دماغ اور دانت وغیرہ،ان تمام اعضاء کا درست سمت میں کام کرنا ضروری ہے۔اگر یہ اعضاء اپنا کام صحیح طریقے سے کر رہے ہوں گے. تو جسمانی افعال کے درست ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نھیں رہے گی۔اعضاء جسم کی بنیادی اکائی ہیں۔

اعضاء کی قدر کا احساس

جب انسان اپنے سامنے کسی معذور شخص کو دیکھتا ہے تو اُسے اپنے اعضاء کی قدر کا احساس ہوتا ہے۔اور یہ احساس انسان کے اندر اللہ کی عزت وعظمت کا احساس بڑھا دیتا ہے۔اور انسان اللہ تعالیٰ کو قریب سے پہچان لیتا ہے .اگر وہ دل سے اس بات کو جان لےکہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہر نعمت انسان کے لئے. شکر کا ذریعہ ہے۔انسانی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں. کہ انسان کو اپنے جسم کی صفائی کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے. کیونکہ صفائی نصف ایمان ہے۔اگر انسان جسمانی صفائی کا خیال رکھے. تو بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے. اگر ہم صاف ستھرا رہیں گے تو جراثیم ہمادے جسم میں داخل نہیں ہوں گے. جو کہ بہت سی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔لہذا جسمانی صفائی بہت ضروری ہے۔

دماغی صحت۔

دماغ انسانی جسم کا اہم حصہ ہے. دماغ جسم کے تمام افعال کو کنٹرول کرتا ہے. ہم کہہ سکتے ہیں. کہ دماغ انسانی جسم کا کنٹرول سنبھالتا ہے جسم میں جو بھی افعال سر انجام دیے جا رہے ہیں. ان کا ریموٹ کنٹرول دماغ کے پاس ہے۔ دماغ انسانی جسم کی تمام سرگرمیوں کو کنٹرول کرتا ہے۔

انسانی جسم کا ستر فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے۔انسانی جسم کا سب سے زیادہ حساس حصہ دماغ ہے۔اس میں بےشمار چھوٹے چھوٹے سیل موجود ہیں جو کہ انسٹرکشن دیتے ہیں. اور جسم اس کے مطابق کام کرتا ہے۔انسان دماغی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنا کام سر انجام دیتا ہے۔دماغی صحت کے لیے انسان کا ڈیپریشن سے دور رہنا اور دماغ کو ریلیکس رکھنا ضروری ہے۔جس میں صحت کا راز پوشیدہ ہے

روحانی صحت

روحانی صحت کا تعلق انسان کے دل سے ہے اگر انسان کا دل تمام آلائشوں سے پاک ہے. تو روحانی طور پر انسان پر سکون ہو گا اور چہرہ انسان کے دل کا آئینہ دار ہوتا ہے دیکھنے والی آنکھ کو چہرہ دیکھ کر اندازہ ہو جائے گا کہ روحانی طور پر انسان کتنا پر سکون ہے۔روحانی صحت کے لیے نماز اور قرآن مجید کی تلاوت اہمیت رکھتی ہے اگر انسان نماز کا عادی ہو گا قرآن مجید کی تلاوت روزانہ کی بنیاد پر کرے گا تو اس شخص کی روحانی صحت درست رہے گی

غذا اور صحت کا باہمی تعلق

انسانی جسم ایک مشین کی مانند ہے جس طرح مشین کو چلانے کے لیے پٹرول پانی اور تیل کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح انسانی جسم کو چاق و چوبند دکھنے کے لیے غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔صحت مندی سے مراد یہ ہے کہ ایک فرد اپنی پوری جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کر سکے۔پانی وٹامن پروٹین اور کاربوہائیڈریٹ کی ضرورت ہوتی ہے جو اعصاب غدود ہڈیوں دانتوں اور عضلات کی مناسب کارکردگی کے لیے ضروری ہے۔مثلا کیلشیم فاسفورس اور دوسرے نمکیات اعصاب کی قوت اور پٹھوں کی حرکت کو قائم رکھنے میں مدد دیتے ہیں آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائڈ کی آمدورفت میں مدد گار ہوتے ہیں قوت مدافعت پیدا کرتے ہیں۔جس سے جسم مختلف بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاتاہے اس لیے غذا اور صحت کا آپس میں گہرا تعلق ہے جسے کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔

عالمی ادارے صحت کے اصول صحت۔

عالمی ادارہِ صحت نے حفظان صحت کے کچھ اصول مقرر کئے ہیں ان کو اختیار کر کے ہم صاف ستھری اور متوازن غذا تیار کر سکتے ہیں تاکہ جسم صحت مند اور توانا رہے وہ درج ذیل ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے.

صحت مند رہنے کے لیےصفائی کا خیال رکھیں
خوراک کو مکمل پکائیں۔
محفوظ پانی اور خام مال کا استعمال۔
خوراک کو محفوظ درجہ حرارت پر رکھیں۔
کچے گوشت مرغی اور مچھلی کو دوسری غذا سے علیحدہ رکھیں۔
تندرستی ہزار نعمت ہے۔جس کو قائم رکھنے کے لیے ہر شخص کوشش میں رہتا ہے۔

صحت کی قیمت

ایک مفلوک الحال کثیر العیال شخص جو کہ ایک آنکھ سے محروم تھا ہمیشہ اپنی تنگی معاش اور زبوں حالی کا شاکی رہتا۔آخر کار لا چار ہو کر وہ تلاش معاش میں ایک ایسی ولایت میں پہنچا جہاں کے بادشاہ کی ایک آنکھ صدمے سے ضائع ہو گئی تھی۔حکماءے شاہی نے بادشاہ سے عرض کیا کہ اگر ایسے شخص کی آنکھ دستیاب ہوسکے جو کہ ہر پہلو سے آپ کے عین مشابہ ہوتو ہم آپ کی اصلی آنکھ کے مطابق اس کو صحیح طور پر نصب کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں جس کی بینائی اصلی آنکھ کے مطابق ھو گی۔

بادشاہ نے اپنے حکیم خاص کو دروازہ شہر پر متعین کر دیا تا کہ ایسی مشابہ آنکھ والا شخص نظر آئے تو اُسے حضور شاہ میں پیش کیا جائے۔اتفاق سے وہی تنگ حال شخص جب دروازہ شہر سے گزرا تو حکیم کو اس کی آنکھ پیمانے کے مطابق لگی۔اس کو بادشاہ کے روبرو پیش کیا گیا۔بادشاہ نے لاکھوں روپے دے کر اس شخص سے آنکھ طلب کی لیکن اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ آپ کا اپنی ایک آنکھ کے عوض لاکھوں روپے دے کر دوسرے شخص کو کلیتہ بینائی سے محروم کردینا سراسر بعید از انصاف ہے

۔نیک دل بادشاہ نے جبرکو ناانصافی اور نامناسب خیال کرتے ہوئے اپنے ارادے سے درگزر اور اپنی ایک آنکھ کو ہی غنیمت خیال کیا اور اس شخص کو انعام دے کر رخصت کر دیا اور یہ شخص شکوہ شکایت چھوڑ کر اپنی صحت و بینائی کی نعمت عظمیٰ کی صحیح قدر و قیمت سمجھ کر ہمیشہ کے لیے شکر گزار بندہ بن گیا۔دنیا میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو صحت کی قیمت کا صحیح اندازہ لگا سکیں۔لہذا صحت کی قدر کرو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *