اور ان کے ساتھ ہی واپس جاتے اور عام خیال یہ کیا جتا کہ ان کی کامیابی ان کے والد کی مقبولیت کے مرہون منت ہے یہی وجہ ہے کہ جب ان کے والد کا انتقال ہوا تو عام خیال یہی تھا کہ اسرار اللہ گنڈہ پور کی صلاحیتوں کا اصل پتا اب چلے گا کیونکہ اب انہیں اپنے والد کا سیاسی سہارا میسر نہیں لیکن چمکتی آنکھوں اور اپنی انگلی میں چمکتے نگینوں والی انگوٹھی بڑے شوق سے پہننے والے اسرار اللہ گنڈہ پور نے پھر خود کو ثابت کیا کہ ان میں ایک اچھے قانون دان بننے کی صلاحیت پوری طرح موجود ہے ۔ انہوں نے روایتی سیاست کو بھی نہ چھوڑا کیونکہ اپنے یہاں سیاست کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے لیکن ساتھ ہی قانون سازی جیسے اہم ترین عمل پر بھی اپنی توجہ مرکوز کی کہ جواراکین اسمبلی کا بنیادی کام ہے وہ جو پارلیمانی کاروائی پر گہری نظر رکھتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس وقت قانونی اور آئینی امور کے حوالے سے سب کی نظریں صرف اور صرف ایک ہی شخص کی جانب اٹھتی تھیں اور وہ تھے اسمبلی کے سابق سپیکر عبدالاکبر خان کیونکہ وہ ہمیشہ قانون سازی کے حوالے سے بھرپور تیاری اور آئینی و قانونی ریفرنسز لے کر ایوان میں آتے تھے جس کے باعث سماعتیں ان کی بات سننے پر خود بخود مجبور ہو جاتیں ۔ ایسے میں کوئی بھی یہ امید نہیں کر سکتا تھا کہ ایک شخص جس کی مر ابھی صرف 28سال اور کچھ ماہ ہی ہے وہ اس میدان میں اپنا نام پیدا کرے گا اور اپنی دھاک کچھ اس انداز میں بٹھائے گا کہ آنے والے وقتوں میں ایوان کے اندر کسی بھی آئینی و قانونی معاملہ میں نظریں ان کی جانب اٹھنا شروع ہو جائیں گی اور ان کا کہا مستند سمجھا جائے گا کیونکہ وہ جو بھی بات کریں گے وہ آئین اور قانون کی روشنی ہی میں کریں گے۔لیکن اسرار اللہ گنڈہ پور نے اپنا مقام بنانا شروع کیا ایوان میں قانونی سازی ہو رہی ہو یا پھر اچانک کوئی آئینی و قانونی ایشو ہو سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے آئین میں شامل کی گئی ترمیم 270aaaکا معاملہ ہو، بجٹ پر بحث ہو یا اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے حوالے سے بحث ہو ایسے ہرمعاملہ میں بڑے ٹھوس اور مد لل انداز میں اپنی بات ایوان کے سامنے رکھنا اسرار اللہ گنڈہ پور کی پہچان بن گیا یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دور میں جب صوبہ (جاری ہے )