کمپیوٹر اور انٹرنیٹ موجودہ دور کی ایک حیرت انگیز ایجاد ہے جس کے فوائد و استعمالات کی فہرست طویل ہے۔ مگر میں آج اس کے فوائد کے علاوہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے کچھ منفی پہلووں پر روشنی ڈالوں گا۔ کمپیوٹر آج تقریباَ ہر شعبہ زندگی میں میں استعمال ہوتا ہے اور بہت سی چیزوں کو جمع کر کے ان گنت فوائد حاصل کیے جا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ آج کے انٹرنیٹ کے دور میں دنیا کو ایک نیٹ ورک کے ساتھ جوڑ کر ایک گلوبل ویلیج بنا فیا ہے۔ انٹرنیٹ پر مذہب، طب و صحت، ثقافت، تمدن، تاریخ، فلسفہ، نفسیات، جغرافیہ، کھیل، ادب، سیاحت، شاعری، بزنس، موسیقی، سیاست، سائنسی ایجادات کے بارے میں تازہ ترین اور قیمتی اشیاء مل سکتی ہیں، جو کسی بھی شبعہ زندگی میں تحقیقات اور جاننے کی خواہش کو پورا کر رہی ہے۔ گھر بیٹھے پوری دنیا میں زبانی ۔ ٹیکسٹ اور لائیو ویڈیو سٹریمنگ کے ذریعے رابطے تیز کر دیے ہیں۔
دیگر اشیاء کی طرح کمپیوٹر ایک مفید اور نفع رساں چیز ضرور ہے۔ بلکہ موجودہ دور میں نعمت خداوندی سے کم نہیں ۔ لیکن اس کا منفی استعمال نہائت برا انتہائی نقصان دہ ہے۔ آج کل اکثر طلباء اپنے والدین سے آنلائن کلاسز اوع علمی تحقیق کو بنیاد بنا کر کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور سمارٹ فون خریدنے پر اسرار کرتے ہیں۔ مگر عام مشاہدے میں آیا ہے کہ ان میں سے بعض کا یہ اقدام نیک نیتی پر مبنی نہیں ہوتا۔ پس پردہ ان کا مقصد منفی تحقیق و تلاش غلط اور غلط روابط ہوتا ہے۔
آج کل نئی سے نئی ایپ نکل آنے سے طلباء بجائے علمی تحقیق میں شامل ہوں۔ ٹک ٹاک جیسی بے ہودہ ایپ میں دلچسپیاں لے رہے ہیں اور انتہائی بے ہودہ قسم کے حرکات کر کے اپنی شارٹ ویڈیو بنا کر انٹرنیٹ پر اپلوڈ کر رہے ہیں۔ جہاں تک والدین کی بات ہے مشاہدے میں آیا ہے کہ والدین بھی اسی زہر کو پی رہے ہیں اور ساتھ اپنے بچوں کو بھی پلا رہے ہیں۔ مختلف ایپز کے ذریعے آنلائن آنے اور لڑکیوں کے بے لباس ہو کر لائیو آنے تک ایسا کام آج کل آنلائن ہی ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے نوجوان اس نشے میں لگ چکے ہیں اور انٹرنیٹ کے اس نشے سے چھٹکارا حاصل کرنا بہت مشکل نظر آ رہا ہے۔ بہت سے نوجوان بچےاور بچیاں انٹرنیٹ کی دنیا میں آ کر غلط راہوں پر چل نکلے ہیں۔ ان کے ذہن کی نا پختگی کے باعث ایسے ایسے اقدام کر بیٹھتے ہیں جو صرف ان کو ہی نہیں ان کے خاندانوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ دشمنیاں اور عداوتیں جنم لیتی ہیں۔
یہ بچے بچیاں علمی تحقیق اور اسائنمنٹ کے نام پر اپنے ماں باپ و بزرگان کی سادگی و اعتماد کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور اس کے بعد اپنے تعلیمی مشاغل سے ہٹ کر اپنے قیمتی وقت کا زیادہ تر حصہ منفی تحقیق و جستجو اور غلط روابچ پر صرف کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور نتیجہ پڑھائی میں ان کا گراف مسلسل گرتا چلا جاتا ہے۔ اور اور والدین کی لا پرواہی اور چیک اینڈ بیلنس نہ رکھنے کے باعث نہ یہ بچے پھر تعلیم حاصل کرنے کے قابل رہتے ہیں اور نہ ہی کوئی اور پوزیٹیو شعبہ زندگی اختیار کرنے کے قابل رہتے ہیں۔ اب کی سوچ منفی ہو جاتی ہے۔ اور منفی سوچ والے نہ صرف اپنے آپ کو تباہ کرتے ہیں بلکہ کئی ساتھ جڑے دوسروں کی زندگیاں اجیرن کر رہے ہوتے ہیں۔
تعلیمی ترقیات ، پاکیزگی خیالاتاور ذہنی یکسوئی سے وابستہ ہیں۔ جب ذہن منتشر اور پراگندہ ہو جائے تو پھر روحانیت کی جگہ رومانیت لے لیتی ہے۔ اور پھر جب ایک طالب علم کا ذہن رامانیت میں الجھ جائے تو اس کی تعلیمی ترقیات بھی وہی رک جاتی ہیں۔ ایسا عام میرے مشاہدے میں آیا ہے میں نے ایسے ذہین طلباء کو دیکھا ہے جو سکول لائف میں اچھی پرفامنس دے رہے ہوتے ہیں اور جیسے ہی وہ سکول کے ماحول سے نکل کر کالج یونیورسٹی کے دور میں گئے تو لیپ ٹاپ اور سمارٹ فون کی بے جا فرمائش اور پھر جب لیپ ٹاپ اور سمارٹ فون ہو اور اس میں انٹرنیٹ کنکشن نہ ہو تو یہ چیزیں بے فائدہ معلوم ہوتی ہیں۔ جب طلباء کی ان دونوں تک رسائی آسان ہو جائے اور حاصل بھی کر لیں تو تعلیمی تحقیق کی بجائے وہ غلط ایکٹیویٹی میں چلے جاتے ہیں۔ پھر وہ انسان نما طالب سے روحانیت یک دم ختم اور اس کی جگہ رومانیت جنم لے لیتی ہے۔
اور جوں جوں انسان رومانی راہوں پر گزرتا ہے۔ اخلاقی،مذہبی، و دینی قدریں آہستہ آہستہ کند ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔