Skip to content

آپ کے پاس ایک ایسی طاقت ہے جس کا آپ کواندازہ ہی نہیں!

یہ کہانی ہے دو دوستوں کی۔اور ان کی دوستی کی شروعات ہوئی ہسپتال سے جہاں وہ دونوں داخل تھے۔ دونوں میں سے جوایک تھا اسے فالج کا حملہ ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ چل پھر نہیں سکتا تھا اور اپنی انگلی تک نہیں ہلا سکتا تھا۔جب بھی نرس اس کے پاس آتی وہ ایک ہی بات کہتا تھا کہ مجھے کوئی ایسا انجیکشن لگاؤ جس سے میں مر جاؤں۔ میں اور جینا نہیں چاہتا۔ایسی زندگی کا میں کیا کروں۔
جواس کا دوست تھا وہ چل پھر سکتا تھا اور روز کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑا ہوجاتا اور اپنے دوست کو بتاتا (جو چل نیں سکتا تھااسے) کہ باہر کیا چل رہاہے۔ بلکل نیلا آسمان ہے،سفید بادل ہین،ہلکی ہلکی ہوا چل رہی ہے اور کچھ پرندے اوڑ رہے ہیں۔ ایک بہت ہی خوبصورت تلاب ہے جہان بچے مٹی سے کھیلونے بناکر کھیل رہے ہیں اور کچھ لوگ ساتھ بیٹھ کر لہرو کو دیکھ رہے ہیں، کچھ لوگ جوگگ کر رہے ہیں کوئی ورزش کررہاہےکوئی پتنگ اڑارہاہے۔وہاں پر ایک آئس کریم کی دوکان ہے کچھ لوگ آئس کریم کھا رہے ہیں اور سورج کے ڈوبتے وقت باپی پورا گولڈن ہو جاتاہے اور چمکنے لگ جاتاہے۔
شروع میں جب اسے بتانے لگا تو دوست پر اثر نہیں ہوا لیکن آہستہ آہستہ اسے جینے کی چاہت جاگنے لگی۔اب وہ صبح کا انتظار کرنے لگا کہ جلدی سے صبح ہو اور میرا دوست مجھے بتائیں کے آج باہر کیا ہو رہا ہے۔کچھ دن تک ایسے ہی چلتا رہا اور جب وہ ایک دن صبح اٹھا اس نے دیکھا کہ سامنے والا بڈ خالی ہے۔ پھر اس نے نرس کو بلایا پوچا کیاہوا وہ گھر چلا گیاہے۔ تو نرس نے کہا کہ آپ کو تو انہوں نے بتایاہوگا کہ ان کے پاس کچھ ہی دن باقی تھے۔کل رات کو ہی وہ فوت ہو گئے ہے۔یہ سن کر اس کے اندر کی امید پوری طرح ٹوٹ گئ کیون کہ اس کا دوست ہی تھا جو اسے باہر کی دنیاں سے جوڑے ہوئے تھا۔جس کی وجہ سے وہ جان پاتا تھا کہ باہر کیا ہو رہاہے۔اور یہ دنیا کتنی خوبصورت ہے۔کچھ دن تک تو وہ روتا رہا اور جینے کی چاہ چھوڑ دی۔ لیکن دوسری وقت سے اس کے اندر سے ایک چاہت پیدا ہوئی کہ کاش مرنے سے پہلے میں خود اپنی آنکھوں سے باہر دیکھوں کہ کیاہو رہا ہے۔جیسے جیسے اس کے اندر یہ چاہت بڑنے لگی خود کے اندر اسے ایک عجیب سی انرجی محسوس ہونے لگی۔اور ایک دن اپنی پوری طاقت لگاکر وہ بڈ سے گڑا اور پکر پکر کے وہ کسی بھی طرح اس کھڑی کے پاس پونچا۔اور کھڑی کو پکر کر وہ کھڑا ہوا اور کھڑی کے باہر دیکھ لیا۔ لیکن کھڑی کے باہر دیکھتے ہی وہ غصے سے بھر گیا اور زور سے نرس کو آواز لگائ کہ یہ تم نے کیا کیا؟ یہ کھڑکی کے باہر کالی دیوار کیوں کھڑی کردی؟ تو نرس بولی مجھے پانچ سال ہو گئے ہے یہان پر جب سے یہاں ہو کالی دیوار ہی دیکھی اور تھی۔تب اسے سمجھ آیا کہ اس کا دوست اسے جھوٹ بول رہاتھا۔اس نے نرس سے کہا اگر یہ دیوار پانچ سالوں سے ہے تو میرے دوست نے جھوٹ کیوں کہا؟ تو نرس مسکرائ اور بولی کہ میں یہ تو نہیں جانتی کہ انہوں نے جھوٹ کیوں کہا؟ لیکن مین اتنا ضرور جانتی ہوں کہ جو کچھ انہوں نے آپ سے کہا اسی وجہ سے آپ ابھی اپنے پیرو پہ کھڑے ہے۔

اس کہانی سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ جو ہمارے الفاظ ہے ان کی اتنی اہمیت یے جس کی کوئ ہد نہیں۔وہ کسی آدمی کو گرا بھی سکتے ہے اور اٹھا بھی سکتے ہے۔تو اب آپ کے اوپر ہے کہ آپ اپنی پاور کو اچھے کاموں میں استعمال کرتے ہو یا برے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *