Home > Articles posted by Jawad Ali
FEATURE
on Jan 2, 2021

*قرآن، کتابِ انقلاب*چودہ صدیاں پہلے کا منظر، خطہءِ عرب گمراہی کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے اور عالَمِ انسانیت لامتناہی اندھیروں میں بھٹک رہی ہے اور روشنی کی ننھی سی کرن کے لیے تڑپ رہا ہے۔پھر تاریخِ زمانہ نے منظر بدلتے دیکھا۔ اسی سر زمینِ وحشت پر انسانیت نوازی کا آفتاب طلوع ہوتا ہے۔پہلے پہل یہ آفتابِ ہدایت حرا کی خلوتوں میں جگمگاتا رہا اور پھر حکمِ ربانی پاکر فاران کی وادیوں سے چمکتا دمکتا ہوا ضوفگن ہوتا ہے اور زمانہ میں نغمے گونجنے لگتے ہیں: وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا مرادیں غریبوں کی بر لانے والا اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا اور اک نسخہءِ کیمیا ساتھ لایا نسخہءِ کیمیا کیا تھا؟ حکمتوں بھری قرآن و فرقان، تیس سیپاروں پر مشتمل کتابِ انقلاب۔ معرفتِ حضور صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم سے زمانے کو عطا ہونے والا ایک بہت بڑا انعام۔ قرآن جو کتابِ انقلاب ہے، حضور صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے اور جو اس بحرِ حکمت میں غواصی کرے اسے بھی معجزہ نما بنا دیتا ہے۔قرآن کتابِ انقلاب ہے اور حضور نبی کریم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی ذات داعیِٔ انقلاب ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جو جامع و اکمل نمونۂِ عمل ہے۔چودہ سو سال پہلے ایک طرف کتابِ انقلاب تھی تو دوسری طرف داعیِٔ انقلاب صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کا کردار۔ جس نے بھی کتابِ انقلاب کو تھام کر دامانِ رسول صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم سے وابستگی اختیار کی وہ ظلمت کے اندھیروں سے روشنی کے جزیروں کی طرف محوِ سفر ہوا۔یوں ظلمتیں چھٹنے لگیں اور انوارِ توحید ابھرنے لگا۔ حق واضح ہوتا گیا۔ باطل سرنگوں ہوتا چلا گیا۔ رہزنوں کو راہبری ملی۔ وحشت و بربریت کے علمبردار امن کے معمار بن گئے۔ غرض یہ کہ قرآن کریم عالمِ انسانیت کے لیے جامع ترین کتابِ انقلاب ہے کہ اس نے مسلم بھائی چارے کی فضا میں غیر مسلموں کے لیے بھی حقوق مقرر کر دیئے۔ہمارا شاندار ماضی اسی کتابِ انقلاب کی خوش بختی سے عبارت ہے اور ہمارا عہدِ حال و مستقبل بھی اسی کتابِ انقلاب کی برکات حاصل کرنے کے لیے سسک رہا ہے۔قرآن صحیفہ ہے، وظیفہ ہے، دعا ہے-اللّٰه کی آواز ہے، تخلیقِ خدا ہے-آج بھی ہم کتابِ انقلاب کی سنہری روشنی میں اندھیروں سے نبردآزما ہوسکتے ہیں۔ اللّٰه پاک ہمیں اسی کتابِ انقلاب کی ہدایت دائمی سے نجات کا رستہ دکھائے۔

FEATURE
on Dec 26, 2020

ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں لیکن کندھے اچکا کر۔ ہم سے اگر استفسار کیا جائے کہ کیسے حالات چل رہے ہیں؟ تو پہلے چہرے کا رنگ تبدیل کرتے ہیں تھوڑا لال پیلے ہوتے ہیں پھر کندھے اچکاکر کہتے ہیں: “بس جی شکر ہے اللّٰه کا” کیا ہم ایسا کرکے واقعی اللّٰه پاک کی نعمتوں کا شکر ادا کررہے ہوتے ہیں یا اپنے حالات کا منافقت سے رونا رو رہے ہوتے ہیں؟ سچا مسلمان یوں شکر ادا کرنے کی محض رسم پوری نہیں کیا کرتا بلکہ وہ ہر حال میں شکر ادا کرتا ہے۔ وہ حالات کی طلاطم خیز موجوں میں پروردگار کی ان نعتموں کو نہیں بھولتا جو اربوں روپے دے کر بھی حاصل نہیں کی جاسکتیں۔ چاند و تارے، زمین و آسمان، سورج، ماحول، موسم، ہوا اور پانی وغیرہ یہ نعمتیں ہم نے کب سے استعمال کرنا ترک کردیں ہیں؟ کیا ہم نے بھوکا سونا شروع کر دیا ہے؟ کیا روٹی پانی کے بغیر پل رہے ہیں؟ کیا ہوا کی آکسیجن کے بغیر سانس لے رہے ہیں؟ کیا روشنی کے بغیر دیکھتے آرہے ہیں؟ کیا یہ نعمتیں اس پروردگار کی عطا کردہ نہیں؟ کیا ہم انہیں کہیں سے خرید سکتے ہیں؟ ہر سوال کا جواب اگر نہیں ہے تو کیسا رونا اور کیسا دھونا؟ Also Read: https://newzflex.com/54096 مری مری اور دبی دبی آواز میں رب العالمین کا شکر ادا نہیں کیا جاتا بلکہ مسلمان تلواروں کی نوک پہ چڑھ کر بھی رب کا شکر ادا کرنے والے حسین رضی اللّٰه عنہ کی طرح ہوتا ہے. الله تعالٰی سوره رحمٰن میں بار بار فرماتے ہیں: “تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟” یہ جھٹلانا دراصل ہمارے اسی اندازِ تشکر میں بھی پایا جاتا ہے جس کا میں نے شروع میں تذکرہ کیا تھا تو گفتگو کو سمیٹتے ہوئے میں شکر کے اس انداز کو ترک کرکے خوشی خوشی شکر ادا کرنے کی گزارش کرتا ہوں۔ جب بھی ہم اللّٰه پاک کا شکر ادا کریں تو وہ شکر ایسا ہو جو واقعی ہی شکر ہو ہمارے شکر میں اللّٰه تبارک وتعالیٰ کی وہ تمام نعمتیں بول رہی ہوں جو ہم استعمال کرتے ہیں اور اس کے تمام احسان بھی ہماری سوچ و فکر میں سموئے ہونے چاہئیں جن کے بغیر ہم نہ تو زندہ رہنے کے قابل ہوتے اور نہ ہی سانس تک لینے کے۔