ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں نہتے شہری کےقتل کے بعد سانحہ سائیوال سے سانحہ اسلام آباد تک ریاستی ظلم کی ان گنت داستانیں۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی اور ریاستی جبر کی سیاہ رات کاتسلسل ہے۔ اسلام آباد پولیس ناکوں پر جآمہ آور جیب تلاشی پر کبھی نہ کسی نے آواز اٹھائی اور نہ کسی ریاستی عہدیدار نے کوئی کاروائی کی۔ عوام اسے معمول کی کاروائی قرار دے چکے ہیں اور افسران وحکمرانوں کی خاموشی حصہ داری کے طے شدہ کاروباری ماڈل ہے۔
جیب تلاشی اب گردن زنی تک پہنچ چکی ہے۔ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں غریب پاکستانی کی شہادت پر غیرت اور حمیت سےعاری قوم خاموش رہی اور ریاست عالمی استعمارکے ایجنٹ کا کردار ادا کرکے جبری صلاح نامے کا ذریعہ بنی۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن اور سانحہ سائیوال کےقاتل درندوں کو جس طرح ریاست نے پناہ دی، اس کے بعد پاکستان میں شہریوں کی جان اور مال کاتحفظ اس دور کاسب سے بڑا جھوٹ ہے۔سانحہ اسلام آباد کے بعد اس قتل کو اس بھونڈے آنداز میں چھپانے کی سازش ہوگی کہ قاتل محافظ اور مقتول دھشت گرد قرار پائےگا۔ غلام پاکستانی قاتلین کی جبری تنخواہ جاری رکھیں گے۔ انصاف یہاں صرف بکتا نہیں بلکہ جھکتا بھی ہے۔ جب مظلومین ظالموں سے سمجھوتہ کرلیں وہاں خیر کبھی باقی نہیں رہتا۔ جہاں سے انصاف اٹھ جائے وہ معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا۔ جو قوم اپنی بربادی کا سامان خود فراہم کریں وہ وقت کے انتقام سے کیسے بچ سکتی ہے۔قتل اور ریاستی قتل میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ محافظ جب قاتل، رہزن اورخوف کی علامت بن جائیں پھر امن کیسا۔ جس ملک کاصدر، وزیراعظم، چیف جسٹس اور مقننہ و انتظامیہ کے سرخیل قانون شکن ہوں اس ملک کے محافظین کوقاتل بننے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ یہ سارے واقعات اس پر گواہ ہی تو ہیں۔
وقت کے ہاتھوں تباہی سے بچنے کی صرف ایک سبیل ہے کہ ریاستی اہل کاروں کے ہاتھوں اسامہ شہید کا قتل آخری ہو۔ اگر ایسا نہ ہوا توہماری تباہی کے لیے کسی دشمن کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہم خود اپنے ہاتھوں قتل کیے جائیں گے۔ یہ خدشہ نہیں آنے والے کل کی تصویر ہے۔ جن کو دکھائی نہیں دیتی وہ بے نام مارے جائیں گے اور جنازہ دفنانے والا کوئی میسر نہیں ہوگا۔ یہ پیشنگوئی نہیں قانون فطرت ہے۔ تاریخ کے اوراق ایسے واقعات پر گواہ ہیں اگر کوئی تلاش کرنا چاہے تو۔۔۔۔ عطاء الرحمن عطاء ا۔ چوہان